قطعات- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)

قطعہ

یا رب! مجھے ذخیرہ حرفِ ثنا ملے
خلدِ نبیؐ کا موسمِ دلکش سدا ملے
یا رب! پڑا رہوں درِ اقدس کے آس پاس
بندہ ترا ہوں، مجھ کو شبِ التجا ملے

قطعہ

ندی کے دونوں کنارے جواب دیتے ہیں
تمام لفظ ہمارے جواب دیتے ہیں
درود پڑھ کے تو دیکھو کبھی پیمبرؐ پر
ادب سے چاند ستارے جواب دیتے ہیں

قطعہ

روشنی کے کھلیں پھول چاروں طرف
میرے آنگن میں کرنوں کی برسات ہو
اُنؐ کے نقشِ قدم سے اٹھے کہکشاں
اک اُجالا سا بستی میں دن رات ہو

قطعہ

روشنی کے کھلیں پھول چاروں طرف
میرے آنگن میں کرنوں کی برسات ہو
اُنؐ کے نقشِ قدم سے اٹھے کہکشاں
اک اُجالا سا بستی میں دن رات ہو

قطعہ

حجازِ عشق سے خورشید شرماتے ہوئے گذرے
قلم سرکارؐ کی گلیوں میں لہراتے ہوئے گذرے
لپٹ جائے درِ اقدس سے خوشبو! قافلہ تیرا
صبا شہرِ نبیؐ پر پھول برساتے ہوئے گذرے

قطعہ

مجھ کو غبارِ شہرِ مدینہ نصیب ہو
خاکِ درِ نبیؐ کا خزینہ نصیب ہو
اکثر ملیں ریاضؔ حضوری کے رتجگے
مدحت کی وادیوں کا شبینہ نصیب ہو

قطعہ

عشق کے گہرے سمندر میں رہے کشتی مری
التجاؤں میں رہیں سرکارؐ بے تابی کے پھول
جسم و جاں زخمی ہوئے ہیں کوچۂ آلام میں
مانگنے آیا ہوں طیبہ میں شفایابی کے پھول

قطعہ

حلیمہ تیری قسمت کی بلائیں کیوں نہ لے شاعر
تری تاریک کٹیا میں عرب کا چاند اترا تھا
ترے گھر کی فضاؤں میں ستارے رقص کرتے تھے
ترے آنگن کے ہر گوشے میں ابرِ نور برسا تھا

قطعہ

جھکائے سر کھڑا ہوں گنبدِ خضرا کے دامن میں
بہت سے اشک چشمِ تر میں اپنے ساتھ لایا ہوں
اندھیری رات کب سے ہے مسلّط میری بستی پر
میں خاکِ شہرِ طیبہ سے ستارے چننے آیا ہوں

قطعہ

بارہا چاند تاروں سے پوچھا گیا
کس کے قدموں کا دھوون ہوا ہے عطا
کہکشاں نے فلک سے اترتے ہوئے
میرے ہاتھوں پہ اسمِ نبیؐ لکھ دیا

قطعہ

عشقِ سرکارِ دوعالم کا خزینہ بانٹوں
چشمِ پُرنم سے جو ٹپکا ہے شبینہ بانٹوں
جتنے کشکول ہیں اشکوں سے وہ بھر جائیں ریاضؔ
ساری خلقت میں زرِ خاکِ مدینہ بانٹوں

قطعہ

مرے قصرِ ثنا میں اَن گنت ایسے بھی خطّے ہیں
جہاں ہر وقت مدحت کے پرندے اڑتے رہتے ہیں
جہاں ہر وقت چلتی ہیں ہوائیں شہرِ طیبہ کی
جہاں ہر وقت کشتِ آرزو میں پھول کھلتے ہیں

قطعہ

جس میں ہے درج شہرِ مدینہ کی روشنی
در پیش لفظ میں ہیں غلامی کے آفتاب
بچپن سے اشکبار ہے جس کا ورق ورق
امشب درِ حضورؐ پہ لایا ہوں وہ کتاب

قطعہ

کس نے فکری الجھنوں سے دی ہے انساں کو نجات
کس نے گرہیں کھول دیں ارضِ تمنا کی تمام
کس نے ذہنوں سے کھرچ ڈالے توہّم کے نقوش
آمنہؓ کے لالؐ پر لاکھوں کروڑوں ہوں سلام

قطعہ

شاعر نے تھام رکھا ہے کشکولِ آرزو
اشکوں سے لکھ کے لایا ہے نغماتِ التجا
زخموں سے چور چور ہے اس کا بدن، حضورؐ
سر پر کھڑی ہے ایک نئی شامِ کربلا

قطعہ

قلم کو ہر جزیرے کا خزینہ لکھتا رہتا ہوں
حروفِ دل کو مدحت کا نگینہ لکھتا رہتا ہوں
کتابِ آرزو کے ہر ورق پر اشکِ پیہم سے
مدینہ ہی مدینہ ہی مدینہ لکھتا رہتا ہوں

قطعہ

مجھے معلوم ہے بس موسمِ صلِّ علیٰ ہو گا
مجھے معلوم ہے بخشش کا پروانہ عطا ہو گا
مجھے معلوم ہے سرکارِ دو عالمؐ کی نسبت سے
لحد کی شامِ مدحت میں ابد تک رتجگا ہو گا