فردیات- برستی آنکهو خیال رکهنا (2018)
فردیات
رعنائیِ خیال کی کلکِ ثنا لئے
عرصے سے معتکف ہوں دیارِ حجاز میں
*
غلامی، آپؐ کی، یارب! مرے بچوّں کو حاصل ہو
صلہ ہے بس یہی کافی مری مدحت نگاری کا
*
اُنؐ کی رحمت ڈھونڈ لیتی ہے پسِ دیوار بھی
سائلوں کو غم زدہ ہونے نہیں دیتے حضورؐ
فردیات
ہر ایک خط پہ درج پتہ ہے حضورؐ کا
کرتی رہے گی حشر تک نامہ بری ہوا
*
اس لئے جگنو کو رکھتا ہوں میں جاں سے بھی عزیز
روشنی کا ہر تصور آپؐ سے منسوب ہے
*
تلاشِ امن کا یہ راستہ ہو سامنے یارب!
مجھے زخمی پرندوں کی اڑانیں مضطرب رکھیں
فردیات
پہلے سلام کون کرے گا حضورؐ کو
آپس میں آج بھی ہیں ستارے الجھ پڑے
*
وہؐ کبھی تنہا مجھے رہنے نہیں دیتے ریاضؔ
اس قدر پھولوں بھری ہے شامِ تنہائی کہ بس
*
زخموں کی شال اوڑھ کے آیا ہوں میں حضورؐ
خاکِ شفا کی چادرِ رحمت مجھے ملے
فردیات
آنسوؤں میں گنبدِ خضرا کا تھا عکسِ جمیل
ہم پسِ مژگاں تلاوت آپؐ کی کرتے رہے
*
غموں کی دھوپ میں جھلسا ہوا بدن مولا!
لپیٹ لایا ہوں حرفِ دعا کی چادر میں
*
چاروں طرف سے تیر برستے رہے مگر
میں نے درود پڑھتے ہوئے شب گذار دی
فردیات
مری عمرِ رواں کے ایک اک لمحے کا حاصل ہے
وراثت میں مَیں چھوڑ آیا ہوں وہ خرقہ غلامی کا
فردیات
بچپن گذر گیا ہے، جوانی گذر گئی
ہو خاتمہ بخیر مرے ربِّ کائنات
*
یاخدا! آیا ہوں خالی ہاتھ میں تیرے حضور
کچھ نہیں دامن میں میرے اُنؐ کی مدحت کے سوا
ء
خدا کا شکر ہے پڑھتے ہوئے درود و سلام
ریاضؔ، عمر گذاری ہے رتجگوں کی طرح
*
مکتبِ عشقِ نبیؐ میں روشنی کی ہے مثال
نعت ہے تیرہ شبی میں چاند راتوں کا ظہور
فردیات
مانگنے کا کب سلیقہ آئے گا تجھ کو ریاضؔ
ہو درِ رحمت مقفّل، یہ کبھی ممکن نہیں
*
جب سسکتی سی دعائیں لب پہ ہوں گریہ کناں
رحمتِ حق لے کے آتی ہے ردائے مستجاب
*
چراغِ علم و ہنر اٹھائے، ہوائیں طیبہ سے آرہی ہیں
لبوں پہ صلِّ علیٰ کا نغمہ گلاب بن کر کھلا ہوا ہے
فردیات
جہاں تاریخ دہراتی ہے طائف کے حقائق کو
ہوائے خلدِ طیبہ اُن گذرگاہوں سے گذری ہے
*
لب تشکّر کے خنک پانی میں ہیں ڈوبے ہوئے
اے خدا! تیرے کرم کی انتہا ہو تو کہوں
*
درختو اپنے پتوں کو کہو خاموش ہو جائیں
مرے آنگن کی چڑیوں کو درودِ پاک پڑھنا ہے
*
شاعر تری عطاؤں کا رکھے گا کیا حساب
یارب! ترے کرم کی کوئی انتہا نہیں
*
خدائے مہرباں یہ التجا ہے ایک شاعر کی
دمِ رخصت مدینے میں سکونت کی نوید آئے