ترتیب- تاجِ مدینہ (2017)

اظہاریہ

نصابِ زندگی محمد حسنین مدثر

حمدِ ربّ جلیل

یارب! زباں کو ندرتِ گفتار تو نے دی

دعا

مرے قبیلے کے سب جوانوں کو روشنی کے علَم عطا کر

سلام

سر جھکاتی آپ ﷺ کے در پر اناؤں کو سلام

حمد و نعت

اُس ذاتِ لا شریک کو ربِّ جہاں کہوں
جوارِ کلکِ مدحت ہیں عجب خوشبو ہے لہرانی
مرے ہونٹوں پہ تو اسمِ امیرِ مرسلاں ﷺ لکھ دے

تاجِ مدینہ

خدائے برگزیدہ کی عطا تاجِ مدینہ سے

ثنائے ہادیٔ کونین

تلچھٹ ہوں زمانے کی، سیہ کار ہوں آقا ﷺ
اب جہالت کیا جلائے گی جہالت کے چراغ
ہم رعایا آپ ﷺ کی ہیں، یا نبی ﷺ ، چشمِ کرم
مَیں اک غریب شہر قلم ہوں، کرم کریں
مرے بچوں کے ہاتھوں میں فقط ہیں پھول مدحت کے
غبارِ شہرِ اقدس میں اتر جاؤں گا مَیں آقا ﷺ
ازل سے ہوں مدینے کے گلی کوچوں کا شیدائی
آئنہ خانہ الگ، طیبہ کا ہر منظر جدا
قرآن کا ہے نور شریعت حضور ﷺ کی
صلِّ علیٰ کا لب پہ ہے گلشن کھلا ہوا
میری تجوریوں میں خزینہ ہے منفرد
آقائے مکرم ﷺ کے مدینے کا مکیں ہوں
سب کچھ مجھے سرکار ﷺ نے عیدی میں دیا ہے
خیمہ زن ہے یہاں موسمِ بے ثمر، اک کرم کی نظر اک کرم کی نظر
سکونِ قلب کی ہوں رتجگوں میں رونقیں آقا ﷺ
شعاعِ عفو ہمیشہ سے ہے چراغِ راہ
یوں ابر کہیں اور برستا نہیں دیکھا
مصّلے پر، خدائے مہرباں، میری جبیں برسے
آپ ﷺ کے دلکش وجودِ عنبریں کی روشنی
جھونکا ہوں خنک عجزِ مسلسل کی ہوا کا
اُن ﷺ کے طفیل ہم چمن آرائیوں میں ہیں
ہر شب مجھے ہوجاتا ہے دیدارِ مدینہ
طیبہ کے آرہا ہوں چمن زار میں حضور ﷺ
پوشاکِ حرفِ نعت زرِ سرمدی کی ہے
ثنا کے ہر افق پر ماہِ کامل ہیں مری آنکھیں
عجب سا کیف ہے کشتِ ہنر کی آبیاری میں
دیوار و در نہ کوچہ و بازار کے لیے
در پر کھڑا ہے ایک بھکاری کرم حضور ﷺ
ہزاروں التجائیں، یا نبی ﷺ ، ہم ساتھ لائے ہیں
اندھیرا شرک کا تھا آپ ﷺ کے انوار سے پہلے
مجرم ہوں مَیں نے اپنے لوٹے ہیں خود خزینے
ہے کرم اُن ﷺ کا کرم کے سائبانوں پر محیط
ہمسفر تھی راستوں کے پیچ و خم کی روشنی
خدا رکھّے قیامت تک مری کلکِ ثنا روشن
آپ ﷺ میر امم، آپ ﷺ سلطانِ ما، سیدی مرشدی خاتم الانبیاء
نام ہی طیبہ کا ہم کو جاں سے ہے پیارا بہت
شریکِ مدحتِ سرکار ﷺ ، مدت سے ہے گھر میرا
مرے نبی ﷺ کے مدینے کی رہگذر میں رہے
ہر پیرہن بدن کا اگرچہ ہے کاغذی
قلم کے ساتھ ورق پر مری جبیں ہوگی
نعتِ نبی ﷺ کے جھومتے اشعار ڈھونڈنا
میری آنکھو! مدینے میں برسا کرو
حکم سوئے ریگ صحرا ابر پاروں کو ملے
نعت کی ہے فضا دلنشیں آج بھی
اُن ﷺ کے نقوشِ پا سے ہی پائے گی روشنی
صبا ثنائے نبی ﷺ صبح و شام کرتی ہے
سردارِ کائنات کا پیکر بھی روشنی
حُبّ نبی ﷺ نجات کا منظر دکھائے گی
سرِ محفل، برہنہ سر پہ اُن ﷺ کا نقشِ پا دیکھا
ردائے عفو و کرم عہدِ بے اماں کو ملے
نوکِ زباں پہ نعتِ پیمبر ﷺ سدا رہے
گرچہ ہوائے کرب یہ ملکِ عدم کی ہے
اترے ہیں لب پہ چاند ستارے حضور ﷺ جی
ہر حرفِ آرزو کی صدائیں قبول ہوں
وراثت میں ملی ہم کو شبِ رنج و امم، آقا ﷺ
نعت ہے سرکار ﷺ کی ارض و سما کی روشنی
ہجومِ غم میں گھرا ہوا ہوں، حضور ﷺ میرا خیال رکھئے
خدا کے فضل سے ہے روشنی میں گھر کا گھر میرا
آقا حضور ﷺ ، آپ ﷺ کی چوکھٹ پہ آج بھی
دامنِ دل میں آنسو چھپالو، لب پہ سارا گلستاں سجالو،
میرا قلم ہے پیرہنِ رنگ و نور میں
آؤ کہ ثنا خوانو! دلدار کی باتیں ہوں
آپ ﷺ کا شاعر کسی بھی طور سے واقف نہیں
ناقۂ حرفِ ثنا سوئے مدینہ جائے
حجلۂ شب سے مجھے غم نے صدا دی ہے حضور ﷺ
تمام اشک سپردِ قلم کئے جائیں
سجدے میں ہے لغت کہ ادب کا ہے یہ مقام
کیا رتجگا ہے وادیٔ مدحت نگار میں
حریمِ سخن کا میں والی ہوں آقا ﷺ
ابرِ کرم کی اجلی فضا ہو قدم قدم
قلب و نظر کا نورِ بصیرت یہی تو ہے
معطر ہے میری زباں اللہ اللہ
سیاہی گھول دی ہے یا نبی ﷺ شب کی ہواؤں میں
مخزنِ عشقِ پیمبر ﷺ ہے مرا تازہ کلام
غبارِ شہرِ کرم آئنہ گری کی دلیل
گلستاں سے پرے افلاک پر ہی بجلیاں ٹھہریں
مرے دن رات پر چشمِ کرم سرکار ﷺ ہوجائے
ذکرِ جمیل کرتا ہے کس تاجدار کا
ظہور، اول، ظہور آخر، ظہورِ شمس و قمر سے پہلے
اج دا آدم زاد مَیں ایویں کوکاں تے کرلاواں
ہر صبح مدینے میں، ہر شام مدینے میں