ایک نعتیہ مکالمہ- زر معتبر (1995)
کہا طبیب نے اِک عاشقِ رسول سے یہ
کہ آنکھ آپ کی کرنوں سے آشنا کم ہَے
چراغ جلتے ہیں لیکن بہت ہی مدھم ہیں
نئی سحر کی بشارت میں لے کے آیا ہوں
ملی ہے غیر ممالک سے آنکھ کی سوغات
اجازت آپ اگر دیں تو چار ہی دن میں
نئے چراغ جلا دوں میں بجھتی آنکھوں میں
غلامِ سرورِ دیں نے اُٹھا کے پلکوں کو
کہا طبیب سے ممنون ہوں بہت تیرا
مگر قبول نہیں پیش کش مجھے تیری
وہ آنکھ گنبدِ خضرا کا عکس ہے جس میں
دیارِ پاک کی گلیوں کو جِس نے چوما ہے
طواف جس نے کیا ہے مزارِ اقدس کا
غبارِ راہِ مدینہ ہے جِس کے آنچل میں
درُود لکھا ہے جِس نے برنگِ اشک رواں
وہ آنکھ جِس نے ہر ایک زائرِ مدینہ کی
جبیں پہ بوسے دیئے ہیں وفورِ اُلفت سے
وہ آنکھ میرے بدن سے جدا نہیں ہو گی
متاعِ عُمرِ رواں ہے فنا نہیں ہو گی
نمازِ عشقِ محمدؐ قضا نہیں ہو گی
وہ آنکھ جس میں کہا تُو نے روشنی کم ہے
ردائے نور میں لپٹی ہوئی ہے اے غافل!
حریفِ کاہکشاں لوگ اِس کو کہتے ہیں
یہی ہے میرا اثاثہ یہی ہے زادِ سفر
لحد میں مَیں تو یہی آنکھ لے کر جاؤں گا
چراغِ عشق اسی آنکھ میں جلاؤں گا
کھڑا تھا آج میں اُس باوفا کے مرقد پر
وہاں سے صلِ علیٰ کی صدائیں آتی تھیں
ریاضؔ، شہر نبیؐ کی ہوائیں آتی تھیں