فردیات- تاجِ مدینہ (2017)

دستِ عطا سے پائیں گے پروانۂ نجات
مَحْشر ظہورِ عظمتِ سرکار ﷺ کا ہے دن
*
طیبہ میں داخلے ہی سے پہلے ریاضؔ جی
ہم نے چراغ پھینک دیئے تھے پسِ غبار
*
ایک اک لمحہ حضوری میں بسر ہو گا ریاضؔ
روزنِ دیوارِ طیبہ میں سجا آیا ہوں دل

عَدل کی میزان قائم ہو رہی ہے حَشر میں
اپنی اپنی تختیوں پر نام لکھ لو آپ ﷺ کا

جب میں شہرِ نبی ﷺ سے نکلنے لگوں
واپسی کے مقفّل ہوں سب راستے

خلدِ بریں تو خلدِ بریں ہے مگر ریاضؔ
برزخ میں بھی چراغ ثنا کے جلائیں گے

ہم بھی گذرے ہیں مدینے کی گذر گہ سے ریاضؔ
ہر طرف دیکھی ہے ہم نے روشنی ہی روشنی

*

چومے ہیں اس نے نقشِ کفِ پا حضور ﷺ کے
خوشبو ملی ہے رقص کے عالم میں آج بھی

*

خدا کا شکر ہے جس نے مری جبلّت میں
ثنائے مرسلِ آخر ﷺ کی روشنی رکھی

طیبہ کی خوشبوؤں سے مَیں رہتا ہوں ہمکلام
ہے رابطہ بہار کے موسم کا پھول سے

*

سردارِ کائنات ﷺ کے دامن کو چھوڑ کر
رسوا ہوئے ہیں غیر کی چوکھٹ پہ آج بھی

*

تنہا ہوں زندگی کے سفر میں مَیں کب ریاضؔ
یادِ غبارِ راہِ مدینہ ہے ہمسفر

جھوٹے تعصبات کی حرمت عزیز ہے
خانوں میں بانٹ دی گئی امت حضور ﷺ کی

*

ورق کے دامنِ صد رنگ میں کلیاں چٹکتی ہیں
قلم بھی آخرِ شب آنسوؤں کے پھول چنتا ہے

*

کس نے آزادی عطا کی ہے غلاموں کو ریاضؔ
کس نے تخت و تاج کا وارث بنایا ہے انہیں

طیبہ، قلم کے عشق کی محراب ہے ریاضؔ
ہر ہر قدم پہ سجدے گذارے گا حشر تک

٭

طیبہ کی یاد مجھ کو ستاتی ہے ہر گھڑی
بارِ دِگر، حضور ﷺ کرم ہو غلام پر

٭

نعتِ سرکارِ ﷺ مدینہ کی بدولت ہمسفر!
زندگی میری شگفتہ پھول کی مانند ہے

مری تنہائیوں میں پھول کھلتے ہیں مدینے کے
مَیں ان سے ہمکلامی کا شرف حاصل بھی کرتا ہوں

٭

جب سے دیکھا ہے در و دیوار کو پڑھتے درود
میری چشمِ تر مسلسل رقص میں رہنے لگی

٭

آبِ شفا ملے مجھے خاکِ شفا ملے
زخموں کی شال میں ہے لپیٹا گیا بدن

٭

مدینے میں غلامی کی خریدیں چل کے زنجیریں
ازل سے تا ابد ہر شخص کے لجپال ہیں آقا ﷺ

قلم جب وجد میں آکر لکھے گا یارسول اللہ
زباں میری درودِ پاک کے گجرے بنائے گی

٭

ان کو تلاشِ عظمتِ رفتہ کا دیں ہدف
بچّے، حضور ﷺ ، نظرِ کرم کے ہیں ملتجی

٭

پانچ مرلے کے مکاں پر شکر ہے رحمان کا
مدحتِ سرکار ﷺ سے بڑھ کر کوئی دولت بھی ہے

آبِ زم زم اور کھجوریں سب بجا اپنی جگہ
حال مجھ کو آپ ﷺ کی گلیوں کے بچوں کا بتا

٭

ہر حوالہ آپ ﷺ کا زندہ حوالہ ہے حضور ﷺ
حیف، کِن مردہ ضمیروں سے ہے کر لی دوستی

٭

نَسْلِ آدم کو شعورِ باہمی آقا حضور ﷺ !
آج انسانوں کے اندر بڑھ رہے ہیں فاصلے

اے صبا! آہستہ چل، آہستہ چل، آہستہ چل
شاخِ نازک سے بھی نازک ہے مدینے کی گلی

٭

جہاں کا ذرّہ بھی صد آفتاب رکھتا ہے
وہاں چراغ جلانے کی کیا ضرورت ہے

٭

ہر دن ہزار عید سے بڑھ کر ہے خوبرو
ہر رات چاند رات ہے شہرِ حضور ﷺ کی

طیبہ نگر کی چاند سی گلیوں میں رات دن
نقشِ قدم حضور ﷺ کے ہم ڈھونڈتے رہے

٭

ریاض ظلمتِ شب سے ہم آشنا ہی نہیں
چراغِ عشقِ پیمبر ﷺ ازل سے روشن ہیں

٭

جو مصروفِ طوافِ کعبہ ہیں اُن پر کرم برسے
غلامانِ رسولِ ہاشمی کا یہ سمندر ہے

ملے گی ان میں درود و سلام کی رم جھم
اٹھا کے لایا ہوں میں دل کی دھڑکنوں کے گلاب

٭

فلک خوش بخت لوگوں میں ہمارا نام بھی لکھ لے
شرف حاصل ہمیں بھی اُن ﷺ کی ہے مدحت نگاری کا