حصارِ گنبدِ ہجر کی پہلی صدا- زر معتبر (1995)
ملے جو اذنِ حضُوری تو زائرِ طیبہ
سلام کہنا ادب سے غلام زادے کا
درودِ پاک کے سائے میں عرض پھر کرنا
حضور سیّدِ عالمؐ، وہ ایک دیوانہ
سرِ غبارِ رہِ عشق جو مچلتا ہے
گلابِ اسمِ گرامی سے رنگ و بُو لے کر
کتابِ دل کے ورق پر جو نعت لکھتا ہے
حضورؐ آپؐ کے نقشِ قدم کے سورج سے
وہ اہتمامِ چراغاں کیے ہوئے ہے ابھی
دیارِ پاک کی شاداب وادیوں میں حضورؐ
لگا رہا ہے وہ پودے وفا شناسی کے
حضورؐ، وہ جو فصیلِ دُعا کے بُرجوں میں
چراغِ نُطق جلاتا ہے شام ہوتے ہی
ہوائے شہرِ مدینہ کی چُوم کر آنکھیں
ثنا کے پھول سجاتا ہے حرفِ تازہ میں
اُنہیؐ کی زائرِ خوش بخت ہے قسم تجھ کو
یہ کہہ کے حال مِرے دل کے آبگینوں کا
حضورِ حُسن مِری التجا بھی رکھ دینا
بڑے ہی عجز سے کہنا کہ آپؐ کا شاعر
حصارِ ہجر میں دن رات گِن رہا ہے حضورؐ
سُلگ رہا ہے سرِ شاخِ آرزو کب سے
حضورؐ آپؐ کی گلیوں کا اب بنے زائر
حضورؐ آپؐ کا شاعر، وہ آپؐ کا شاعر