فلک چپ تھا زمیں چپ تھی بشر کی نارسائی پر- زر معتبر (1995)

فلک چُپ تھا، زمیں چپ تھی، بشر کی نار سائی پر
ہوا مامور تھی مستور صدیوں کی کھدائی پر

سراغِ حرفِ نو ملتا نہ تھا آدم کے بیٹوں کو
مسلط تھا جُمودِ مرگ ہی ذہنوں کی کائی پر

مشیّت کا تقاضا تھا کہ وہ آئے سرِ محفل
زمانہ رکھ سکے اُنگلی نہ جس کی پارسائی پر

شجر حرفِ دُعا بن کر اُسیؐ کا نام لیتے تھے
اُسی کا تذکرہ ہوتا رہا ہر پیشوائی پر

اچانک منظرِ شب کو بدل کر رکھ دیا اُس نے
سحر کو بھی یقین آتا نہ تھا اپنی رہائی پر

شعورِ آدمیّت میں بنے روزن، کرن اُتری
کتابِ آرزو کھولی گئی پرچم کشائی پر

مساوات و اخوت کا نصابِ اولیں دے کر
خطِ تنسیخ کھینچا اُس نے اِنساں کی خدائی پر

اُسی نے دم بخود حوّا کی بیٹی کو ردا بخشی
اُسی نے حق دیا مزدور کو اُس کی کمائی پر

غزل کاسہ بکف ساکت کھڑی ہے اُس کی گلیوں میں
بہت ہی ناز کرتی ہے وہ اُس در کی گدائی پر

وہی ابرِ کرم بن کر برستا ہے پسِ مژگاں
وہی قفلِ دُعا کھولے مِری شعلہ نوائی پر

ریاضؔ اپنا بھی تو مقصود ہے اُس کی ثنا خوانی
سدا بیٹھا رہا فقر و غنا کی جو چٹائی پر