ترتیب- نصابِ غلامی (2019)
اظہاریہ
دل کو کیا ہے مَیں نے مدینہ سرِ قلم : محمد حسنین مدثر
حمدِ ربِّ جلیل
ازل سے لاکھ ورق پر خدا خدا لکھوں
دعائے آخرِ شب
خلاؤں میں خداوندا! کھلی آب و ہوا دے دے
خدا کا نام لیتا ہوں میں ہر اک کام سے پہلے
ربطِ غلامی
خلعتِ انوار میں سمٹے دعاؤں کا سفر
آپ کے الطاف و رحمت کی نہیں کوئی حدود
کرم کے پھول دامن میں لئے حرفِ دعا اٹھے
تو اپنے آپ کو تصویرِ التجا کرنا
مدینے میں فقیروں کی صدائیں سانس لیتی ہیں
گلِ نعت شام و سحر ڈھونڈتے ہیں
جن کو ابھی ہے جانا سرکار کے نگر میں
عمر بھر مہکا رہے شہرِ قلم کا رتجگا
سہ نعتیہ
آنکھیں بچھا دو اپنی سرکار ﷺ کی گلی ہے
شہدِ ثنا
دامنِ شہرِ قلم میں رقص کرتا ہے خیال
نبی ﷺ جی، خلدِ طیبہ کی ہواؤں میں مجھے رکھنا
مضامیں نعت نو کے باوضو آئیں گے ذہنوں میں
آپ کی چوکھٹ ہے آقا آنسوو ﷺ ں کے سامنے
کلی شاخِ قلم پر اپنے لب کھولے، ثنا لکھوں
کھولو کتاب عشقِ رسالت مآب ﷺ کی
سرِ مکتب قلم کے پھول مہکیں گے، مرے آقا ﷺ
یارب! غلام شاہ کے دربار میں رہے
میرے ہر لفظ میں جلتے رہیں آنسو پیہم
زمیں پر پھول مدحت کے لئے عمرِ روں اتری
دیارِ ہجر میں پل بھر ہمارا جی نہیں لگتا
اِک خوفِ انحطاط ہے، خوفِ زوال ہے
خون میں ڈوبے ہوئے ہیں آج بھی شام و سحر
اپنا ہی نقش پا ہوں میں، آقا ﷺ کرم کریں
اترے ہیں لب پہ چاند ستارے، حضور جی
کیفِ ثنا میں جھومئے شہرِ حضور ﷺ میں
پیغامِ انقلاب ہے ہستی رسول ﷺ کی
سرکار ﷺ کی تہذیب و ثقافت کی طلب ہے
اے شہر خنک تیرے گلی کوچوں میں گم ہیں
درِ عطا پہ کھڑا ہوں، عطا کریں گے حضور ﷺ
وسیلہ آپ کا ہے، یانبی ﷺ ، شامل دعاؤں میں
روشنی ہی روشنی ہے حرفِ قرآنِ حضور
خوش بخت اُن ﷺ کی زلفِ سیہ کے اسیر ہیں
ہر ذرے کی تزئین ستاروں سے ہوئی ہے
شام و سحر ثنائے امیر امم ﷺ کریں
آپ کے در کی دربانیاں چھوڑ کر، میں کہاں جاؤں گا، میں کہاں جاؤں گا
ہو عطا سرکار ﷺ کے قدمَین کا صدقہ مجھے
لائے ہیں رنگ آج بھی میری دعا کے پھول
آنکھیں چھلک پڑیں مرے در پر کھڑے کھڑے
لوحِ جاں پر نہیں رقم حرفِ صداقت کر لوں
بستی میں خوب ابرِ کرم کی لگے جھڑی
سر مقتل، غلامو! نعرہ تکبیر بن جانا
زر کی تمازتوں کے مہ و سال پر نظر
جس نے قلم دیا ہے اسی کو حساب دیں
ہر مکاں بھی، ہر زماں بھی آپ ﷺ کے سائے میں ہے
ہر اک مکیں کے، اشکِ مؤدت کریں وصول
محفل سجی ہوئی ہے ثنائے رسول ﷺ کی
غبارِ شب میں ہے، یامصطفیٰ ﷺ، سحر میری
کلکِ مدحت ہے مری، حرفِ دعا کی صورت
دست بستہ یوں تو ہے کب سے عجم کی روشنی
ہر ایک آئینے میں مدینے کا عکس ہو
نوکِ قلم پہ اسمِ نبی ہے لکھا ہوا
سرکار ﷺ کی توصیف کے اخبار لکھے ہیں
کوئی نسبت نہ رکھتے شعر طیبہ سے اگر میرے
سجا رہتا ہے آنکھو ںمیں مری شہرِ منور بھی
جوارِ کلکِ مدحت میں دھنک جذبوں کی اتری ہے
طالب کرم کا ہوں مرے آقا ﷺ، کرم کرم
یا محمد مصطفیٰ ﷺ ، چشمِ کرم، چشم کرم
صدیوں سے مقفل ہے ماضی کی درخشانی
حضوری کی بہار سرمدی میں ہو سحر میری
شہرِ آقا ﷺ میں خدایا آب و دانہ چاہیے
قافلہ اترے کبھی، آقا ﷺ کے قدموں کی طرف
موسمِ سبز شاخوں پہ اترا جھوم کر نعت کی دل کشی کا
حاصل ہر اک بشر کو دعا ہے حضور ﷺ کی
خود کو ورق پہ شاعرِ ختم الرسل لکھوں
گم مدحتِ نبی ﷺ میں ہے نطق و بیاں ترا
کتنی طویل ہے یہ شبِ قریۂ جہول
طوافِ گنبد خضرا مدام کرتی ہے
سرکار سے جو مانگا ہے جو وہ پاؤں گا مَیں بھی
دروازہ وا ہوا ہے مقدر کا آج بھی
روشن مثال آپ ﷺ کی ام الکتاب ہے
مری حیات کا عنوان ہی بدل جائے
امت کے مقدر کا گردش میں ستارا ہے
حرفِ دعا کی خیر ہو بادِ صبا کی خیر
بیان حمد، سر شب، مرے خدا ہو گی
لبِ تشنہ پہ صبح و شام حرفِ التجا بھی ہے
اﷲ سے حضوری کی ہر وقت دعا مانگو
ہر طرف اک حلقۂ میرِ امم ﷺ آباد ہے
بہت افسردہ ہیں شام و سحر بھی یارسول اﷲ
کب فسانوں میں ہیں، کب گمانوں میں ہیں
مثلِ انجم ضیاء دے مجھے بھی، سیدھا رستہ دکھا دے مجھے بھی
مدحتوں کے قریۂ مہتاب میں رہتا ہوں مَیں
میں نعت مرسلِ آخر کے سائباں میں رہوں
نبی ﷺ کے رابطے سے ہے خدا سے رابطہ باقی
خورشیدِ آرزو کو فروزاںکیا کرو
ذکر کرتا ہی رہوں گا سیدِ ابرار کا
ارض و سما میں آج بھی ہے گلفشاں کوئی
منصب ہے مجھ کو اُن ﷺ کی ثنا کا ملا ہوا
نہیں ہرگز نہیں شبِ خیزیاں یہ بے اثر میری
قلم بن کے کدی سجدے گذاراں یارسول اﷲ
اب کیا علاج ہو گا مرض کا طبیب سے
رقصاں ہے موجِ نور دل و جاں میں رات دن
بختِ خفتہ کو آقا ﷺ جگا دیجئے، میری بگڑی ہوئی کو بنا دیجئے
لوٹ کر میری نوائے مختصر آجائے گی
لوح و قلم کا سوئے حرم کارواں چلے
تھا نقیب شب مگر اب حلقۂ اسود میں ہوں
سایہ ہے رحمتوں کے علَم کا صدف صدف
اترا ہے شب میں نور کا زینہ سرِ قلم
دل کے افق پر اسمِ نبی پر فشاں ہوا
یہ بھی جہاں انہی ﷺ کا وہ بھی جہاں انہی ﷺ کا
اس سے بڑھ کر اور کیا ہو خوش نصیبی ہمسفر
آقا حضور ﷺ میرے سالارِ زندکی ہیں
رنگ، خوشبو، پھول، شبنم، روشنی سب دل نشین
کرم کے موسم خوش رنگ ہیں اسم گرامی میں
مرے ہر لفظ کی معراج ہے اُن ﷺ کی ثنا کرنا
یہی میرے قلم کی ابتدا بھی، انتہا بھی ہے