دعائے آخرِ شب: خلاؤں میں خداوندا! کھلی آب و ہوا دے دے- نصابِ غلامی (2019)
خلاؤں میں خداوندا! کھلی آب و ہوا دے دے
مرے بچوں کو اڑنے کے لئے بالِ ہما دے دے
درودِ مصطفیٰ ﷺ پڑھتے ہوئے برسے جو طیبہ میں
مری فصلوں کو بھی حوش بخت وہ کالی گھٹا دے دے
ہر اک آنگن میں اتریں چاند راتیں روشنی لے کر
خزانے اپنی رحمت کے سرِ شام دعا دے دے
ملیں آسانیاں ہر ہر قدم پر تیرے بندوں کو
زمیں کے ایک اک خطے کو موسم دلربا دے دے
سجا ہر اک دریچے میں نئے سورج کی کرنوں کو
مری بستی سے تاریکی کو حکمِ انخلا دے دے
عطا کر مجھ کو سنگت شہرِ طیبہ کے مکینوں کی
مجھے حُبِّ رسولِ محتشم کی انتہا دے دے
مری اکھڑی ہوئی سانسوں کا بھی چارہ کوئی یارب!
بدن زخموں سے چھلنی ہے اِسے خاکِ شفا دے دے
نمو کی خواہشیں زیرِ زمیں اشکوں میں ڈوبی ہیں
زمیں کے تشنہ ہونٹوں کو حروفِ التجا دے دے
کہاں جائیں چمن سے کر کے ہجرت تتلیاں مولا!
برہنہ سر، جلی کلیوں کو خوشبو کی ردا دے دے
مہذّب ساعتوں سے ہمکلامی کا شرف دے کر
بھٹکتے قافلوں کو مصطفیٰ ﷺ کے نقشِ پا دے دے
فصیلِ علم پر فرمودگی کے کب تلک سائے
چمن زارِ قلم کو حرفِ تازہ کی قبا دے دے
اسے میں دفن کر دوں کا گذر گاہِ مدینہ میں
مرے مولا! مجھے واپس مری جھوٹی اَنا دے دے
ملے مدحت نگاری کے نئے اسلوب کا موسم
ریاضِؔ بے نوا کو لفظ سارے لب کشا دے دے