کرم کے پھول دامن میں لئے حرفِ دعا اٹھے- نصابِ غلامی (2019)
کرم کے پھول دامن میں لیے حرفِ دعا اٹھّے
درِ آقا ﷺ سے بھر کر جھولیاں میر و گدا اٹھّے
گذشتہ شب چراغِ نعت جب روشن ہوئے گھر میں
در و دیوار انوارِ قلم میں جگمگا اٹھّے
مدینے کے سفر کا خوشبوؤں نے ذکر کیا چھیڑا
شگفتہ پھول شاخوں پر ادب سے مسکرا اٹھّے
مرے اندر کی بینائی کا صائب فیصلہ یہ ہے
نہیں ممکن درِ شہ ﷺ پر نگاہِ التجا اٹھّے
یہ کس نے محفلِ میلاد بستی میں سجائی ہے
کئی برسوں سے پیاسے کھیت میرے لہلہا اٹھّے
مریضِ عشق کے لب پر تمنائیں مچلتی ہیں
درِ سرکار ﷺ سے خاکِ شفا لے کر صبا اٹھّے
نواحِ دیدہ و دل میں مدینے کا ملے موسم
کبھی تختِ تکبّر سے مری جھوٹی اَنا اٹھّے
کٹورے آبِ زم زم سے رہیں گے کب تلک خالی
ہزاروں چھاگلیں بھر بھر کے مکّے سے گھٹا اٹھّے
بس اتنی سی تمنّا ہے خدائے مصطفیٰ ﷺ میری
ثنا کرتے ہوئے محشر میں اُن ﷺ کا خوشنوا اٹھّے
کبھی مزدور کو بھی سانس لینے کی ملے مہلت
کبھی مزدور کے سر سے مشقّت کی قضا اٹھّے
درِ خیرالبشر ﷺ کو چوم کر فرطِ محبت سے
فلک کی سمت میرے سب حروفِ التجا اٹھّے