مدینے میں فقیروں کی صدائیں سانس لیتی ہیں- نصابِ غلامی (2019)
مدینے میں فقیروں کی صدائیں سانس لیتی ہیں
خیابانِ محبت میں ہوائیں سانس لیتی ہیں
ہزاروں پھول لے کر لوٹتی ہیں آسمانوں سے
کرم کے شامیانوں میں دعائیں سانس لیتی ہیں
کروڑوں سال سے ہیں یہ حصارِ ابرِ رحمت میں
کروڑوں سال سے شبھ کامنائیں سانس لیتی ہیں
بیاضِ نعت لایا ہوں جسے اشکوں سے لکھا ہے
درِ اقدس پہ میری التجائیں سانس لیتی ہیں
یہاں آدم کے بیٹوں کو سکونِ قلب ملتا ہے
یہاں امن و اماں کی فاختائیں سانس لیتی ہیں
جوارِ گنبدِ خضرا میں تاج و تخت بٹتے ہیں
عطائے مصطفیٰ ﷺ کی انتہائیں سانس لیتی ہیں
مؤدب سب کبوتر ہیں ہوائے شہرِ رحمت کے
ادب سے خلدِ طیبہ میں فضائیں سانس لیتی ہیں
یہاں سائل کو ملتا ہے طلب کرنے سے بھی پہلے
مرے آقائے رحمت کی عطائیں سانس لیتی ہیں
یہاں خالی کٹوروں کا تصوّر ہی نہیں ممکن
درِ سرکار ﷺ پر پیاسی گھٹائیں سانس لیتی ہیں
چلو شہرِ محبت میں کوئی گھر ڈھونڈنے نکلیں
ریاضؔ ایک اک قدم پہ کربلائیں سانس لیتی ہیں