عمر بھر مہکا رہے شہرِ قلم کا رتجگا- نصابِ غلامی (2019)
عمر بھر مہکا رہے شہرِ قلم کا رتجگا
ہو کرم بارِ دگر، بارِ دگر، میرے خدا
عقل ہی گمراہ ہے ورنہ درِ سرکار ﷺ پر
دانہ دانہ چگ رہی ہے امن کی ہر فاختہ
وادیٔ توصیف میں کھلتے ہیں افکارِ جدید
پھول لاتی ہے مری بزمِ تصوّر میں صبا
ہر دعا کو اے خدا! خلعت قبولیت کی دے
مَیں نے کھولی ہے سرِ مکتب کتابِ التجا
پھول ہوں صلِّ علیٰ کے ہر طرف مہکے ہوئے
رقص کے عالم میں ہو حرفِ طلب، حرفِ دعا
گنبدِ خضرا رہے پیشِ نظر میرے حضور ﷺ
ہو مدینے کی ہواؤں کا ابد تک سامنا
بعدِ محشر بھی کرم کے پھول برساتا رہے
جو چلا ہے آپ ﷺ کے در سے قلم کا سلسلہ
مَیں کھڑا ہوں آپ ﷺ کی دہلیز کو تھامے ہوئے
خوب برسے میری آنکھوں سے مری کالی گھٹا
جھانک کر دیکھے کوئی اس دیدۂ بیدار میں
عکس طیبہ کا ملے گا آئینہ در آئینہ
بزدلی کی پگڑیاں شاہوں کے سر پر ہیں حضور ﷺ
نارسائی کا وثیقہ لب پہ ہے لکھّا گیا
غیرتِ ملّی کا سودا ہو چکا بازار میں
بجلیوں کی زد میں ہے میرے قبیلے کی اَنا
یہ مجھے کامل یقیں ہے سرورِ کون و مکاں ﷺ
ٹوٹ جائے گا مری یہ بے حسی کا دائرہ
یہ دعا کیجیے مرے آقا ﷺ ، رہوں ثابت قدم
وادیٔ طائف مجھے دیتی رہے پھر حوصلہ
عافیت کے پھول کھل اٹھیں دریچوں میں حضور ﷺ
بھول جائے ہر وبا میری گلی کا راستہ
چھین لی ہے ہر متاعِ آرزو احباب نے
آپ ﷺ کے در پر چلا آیا ہوں مَیں روتا ہوا
ختم ہو جائے گا پسپائی کا ہر موسم، ریاضؔ
میرے ہاتھوں پر لکھا جائے گا حرفِ ارتقا