دامنِ شہرِ قلم میں رقص کرتا ہے خیال- نصابِ غلامی (2019)
دامنِ شہرِ قلم میں رقص کرتا ہے خیال
پھر ابھرتا ہے ورق پر نعت کا حسن و جمال
ہاتھ میں لے کر چراغِ عظمتِ خیر البشر ﷺ
پوچھتے رہتے ہیں بچے اُن ﷺ کے بارے میں سوال
خِلْعتِ انوار میں ہے پیکرِ عفو و کرم
آپ ﷺ جیسی دوسری ملتی نہیں کوئی مثال
ایک ہم ہی سجدہ ریزی کا نہیں رکھتے شعور
بت کدوں میں گونجتی رہتی ہے آوازِ بلالؓ
در بدر کی ٹھوکریں کھاتی پھرے گی کب تلک
امتِ محبوب ﷺ کو قصرِ مذلّت سے نکال
ہے خدائے حرفِ تازہ کی عطائے دلنشین
نعت گوئی میں کہاں شاعر کا ہے اپنا کمال
پھول بن جائیں تری قدرت سے اے ربِ قدیر
گنجِ مقتل میں کھڑے ہیں لے کے ہم زخموں کی شال
ہر جزیرے میں صفِ ماتم بچھاتی ہے ہوا
عافیت کے چاند رحمت کے سمندر سے اچھال
منتشر ہوتا نہیں شامِ پریشاں کا غبار
ہو اندھیری رات کا سب بستیوں سے انتقال
سرورِ کونین ﷺ کے صدقے میں اے میرے خدا
وقت لوٹا دے کسی دن پھر وہی جاہ و جلال
پھر اتر آئیں افق سے روشنی کے قافلے
پھر اتر آئیں فلک سے عزم و ہمت کے ہلال
نعت سرمایہ غلامانِ نبی ﷺ کا ہے ریاضؔ
اس کے ماتھے پر نہیں لکھا گیا حرفِ زوال