زمیں پر پھول مدحت کے لئے عمرِ روں اتری- نصابِ غلامی (2019)
زمیں پر پھول مدحت کے لئے عمرِ رواں اتری
کرم کے سبز پانی میں مری بھی ہے زباں اتری
ابھی تو اسمِ سرکارِ مدینہ ﷺ بھی نہیں لکھا
قلم کی دست بوسی کو فلک سے کہکشاں اتری
حضور ﷺ آئے تو جنگل روشنی سے بھر گئے سارے
سماعت کے جزیروں میں صداقت کی اذاں اتری
افق کی سمت کھربوں ہاتھ اٹھے ذرے ذرے کے
شبِ میلاد جب صبحِ انیسِ اِنس و جاں اتری
مری تاریخ شاہد ہے کہ اکنافِ دوعالم میں
ردائے عفو و رحمت ہی برائے دشمناں اتری
جہاں بھی رتجگا ہے آپ ﷺ کی مدحت نگاری کا
سواری آج بھی حور و ملائک کی وہاں اتری
وہیں ہر طاق میں رکھ دو فراق و ہجر کے آنسو
درودِ پاک کی بادِ بہاری ہے جہاں اتری
اسے بھی اعتمادِ ذات دیں گے ہادی ﷺ برحق
درِ رحمت پہ سہمی سی صدائے ناتواں اتری
سگانِ کوئے طیبہ سے ہوئی ہے دوستی جب سے
غبارِ شامِ غم سے آنسوؤں کی داستاں اتری
تھمی برسات کب اشکِ رواں کی خلدِ طیبہ میں
مری نمناک آنکھوں سے بھی گردِ کارواں اتری
بہت سے قفل ٹوٹے بند دروازوں کے اے غافل!
سپاہِ حرفِ تازہ جب پسِ نطق و بیاں اتری
فضیلت کی ردائے محتشم اُن پر نہ کیوں سجتی
ہدایت آسمانی جب برائے مرسلاں اتری
مرے آنگن کے پیڑوں کا مقدّر کیا مقدّر ہے
حضوری کا لئے مژدہ نسیمِ گلستاں اتری
پڑھی جب نعت شامِ حبس کے بجھتے سے منظر میں
مری سانسوں کے مقتل میں ہوائے مہرباں اتری
شرف حاصل ہے طیبہ کی ہوا سے ہمکلامی کا
مری شاخِ ثنا پر بھی شمیمِ گلفشاں اتری
ورق پر خوشبوؤں نے ہاتھ تھاما ہے ریاضؔ اپنا
جوارِ دیدہ و دل میں بہارِ جادواں اتری