دیارِ ہجر میں پل بھر ہمارا جی نہیں لگتا- نصابِ غلامی (2019)
دیارِ ہجر میں پل بھر ہمارا جی نہیں لگتا
مدینے سے جدا ہو کر ہمارا جی نہیں لگتا
کہاں ہیں کیف میں ڈوبی ہوئی وہ سرمدی گلیاں
کہاں ہے گنبدِ اخضر، ہمارا جی نہیں لگتا
چلو انگلی پکڑ کر لے چلو شہرِ محبت میں
نبی ﷺ سے دور چشمِ تر، ہمارا جی نہیں لگتا
مسائل ہی مسائل ہیں، مصائب ہی مصائب ہیں
صفِ ماتم بچھی گھر گھر، ہمارا جی نہیں لگتا
یہاں دھوکا دہی کا کرب شریانوں میں ہے رقصاں
گریں ہر سمت سے پتھر، ہمارا جی نہیں لگتا
یہاں غنڈہ عناصر قتل گاہوں کے محافظ ہیں
نہیں پھولوں بھرے منظر، ہمارا جی نہیں لگتا
فضاؤں میں، ہواؤں میں، ہماری التجاؤں میں
نہیں رقصاں مہ و اختر، ہمارا جی نہیں لگتا
کھڑے ہیں میرے دوازے کے باہر، یارسول اﷲ
ہزاروں آگ کے پیکر، ہمارا جی نہیں لگتا
مواجھے میں برستے اشک اکثر یاد آتے ہیں
کہاں رحمت کے ہیں لشکر، ہمارا جی نہیں لگتا
ملے افطار کرنے کے لئے زم زم کٹوروں میں
لگی ہے آگ سی اندر، ہمارا جی نہیں لگتا
ریاضِؔ بے نوا کو لوٹتے ہیں لوٹنے والے
اِدھر ہاتھوں میں خنجر ہیں، ہمارا جی نہیں لگتا