ہر اک مکیں کے، اشکِ مؤدت کریں وصول- نصابِ غلامی (2019)
ہر اک مکیں کے، اشکِ مؤدت کریں وصول
میرے غریب خانے کا نذرانہ ہو قبول
بادِ خزاں کے چلنے پہ پابندیاں لگیں
صحنِ قلم میں کِھلتے ہوں حمد و ثنا کے پھول
کچھ اس قدر ہے خلدِ مدینہ سے دوستی
پیشِ نظر لحد میں بھی ہے روضۂ رسول ﷺ
یہ روشنی ہو چہرۂ انور کی کیا مثال
یہ روشنی تو آپ ﷺ کے قدمَین کی ہے دھول
سردارِ کائنات ﷺ کے دامن کو چھوڑ کر
ہر شخص بے سکوں ہے تو ہر شخص ہے ملول
پتھر کے دور میں ہے ابھی تک بشر، حضور ﷺ
بارش ہزار سال پڑے بھی تو ہے فضول
عقل و شعور کا کرے ماتم مرا سخن
’’دانش کدہ‘‘ حضور ﷺ ہے ہر قریۂ جہول
مٹی بھی ہے عذابِ مسلسل میں مبتلا
اگتے ہیں کھیت کھیت میں تھوہڑ نما ببول
ہر ہمسفر پہ کرتا ہوں میں اندھا اعتماد
میرا یہ اعتماد ہی، آقا ﷺ ، مری ہے بھول
اجداد کے کفن کہیں نیلام گھر میں ہیں
گروی رکھی ہوئی ہے کہیں عظمتِ بتولؓ
قیدی ہیں اپنے اپنے مفادات کے، حضور ﷺ
ممکن نہیں رہا زرِ اخلاص کا حصول
احیائے دیں کا اس کو عَلَم ہو کبھی عطا
تہذیبِ نو کا ضابطہ ہے نہ کوئی اصول
کلکِ ثنا، ثنائے محمد ﷺ کرے ریاضؔ
مہکے گلِ درودِ منور شبِ نزول