ارض و سما میں آج بھی ہے گلفشاں کوئی- نصابِ غلامی (2019)
ارض و سما میں آج بھی ہے گلفشاں کوئی
اچھا ہوا جو سر پہ نہیں سائباں کوئی
آقا ﷺ کی بارگہ میں گذاریں گے التماس
افتاد آ پڑی بھی اگر ناگہاں کوئی
دلکش ضرور خلدِ بریں ہے، مرے رفیق
در چھوڑ کر حضور ﷺ کا جائے کہاں کوئی
فرمانِ مصطفیٰ ﷺ سے اٹھا کر عمل کے پھول
دیتا رہے گا قریۂ شب میں اذاں کوئی
پھوٹے گی موج موج سے ساحل کی روشنی
اسمِ حضور ﷺ کو تو کرے بادباں کوئی
چشمے ابل پڑیں گے فصاحت کے دیکھنا
رکھے درِ حضور ﷺ پہ اپنی زباں کوئی
جس میں مقیم صرف ہوں شاعر حضور ﷺ کے
مجھ کو عطا ہو نعت کا ایسا جہاں کوئی
آقا ﷺ ، حضور ﷺ ، اذنِ حضوری عطا کریں
طیبہ میں ڈھونڈ لوں گا مَیں خود آشیاں کوئی
اس عہدِ ناروا کے نشیب و فراز میں
کہتا ہے کون؟ میرا نہیں مہرباں کوئی
اُمّت کو کب سے اپنے تشخص کی ہے تلاش
لیکن اِسے ملا نہیں اپنا نشاں کوئی
مقروض لوگ بھیک نہ مانگیں تو کیا کریں
اُن کے نصیب میں ہے کہاں کہکشاں کوئی
توصیف کیا بیاں کروں خلدِ رسول ﷺ کی
ایسی زمین، ایسا نہیں آسماں کوئی
ہر وادیٔ خیال پہ سایہ ہے آپ ﷺ کا
کیسے بھٹک سکے گا قلم، کارواں کوئی
میری جبیں کو مل نہ سکا چاندنی کا لمس
آقا ﷺ ، حضور ﷺ ، سنگِ درِ آستاں کوئی
ہر ہر قدم پہ پھول ہیں کھلنے لگے ریاضؔ
شہرِ نبی ﷺ کی سَمت ہوا ہے رواں کوئی