در کھلا ذہن میں روشنی کا، اوج پر ہے ستارا کسی کا- زر معتبر (1995)
دَر کھلا ذہن میں روشنی کا، اوج پر ہے ستارا کسی کا
ہر طرف چھا رہی ہیں گھٹائیں، ذکر ہے مصطفیٰ کی گلی کا
میرے لفظوں میں گُلشن کِھلے ہیں پھول کرنوں کے مجھ کو ملے
ہیں
اُنؐ کا عکسِ حسیں جلوہ گر ہے ورنہ کیا آئینہ شاعری کا
ایک حرفِ غلط ہوں زمیں پر، داغ ہوں روشنی کی جبیں پر
مجھ کو حاصل ہے اعزاز لیکن مَیں ثناخواں ہوں اپنے نبیؐ کا
آنکھ چہرے پہ بہنے لگی ہے روح بے چین رہنے لگی ہے
چل کے طیبہ کی گلیوں میں رہیے کیا بھروسہ ہے اب زندگی کا
آنسوؤں کے میں گجرے بنالوں، چاکِ داماں کے پرچم اُٹھا لوں
نہ ہنر لب کشائی کا مجھ میں نہ سیلقہ ہے بخیہ گری کا
کس کے ہاتھوں میں وحدت کا خُم ہے کون عشقِ محمدؐ میں گم
ہے
میری بنیاد ہے دشمنی کی، میرا معیار ہے دوستی کا
ورد صلِّ علیٰ کا ہے جاری، وجد پھولوں پہ اب بھی ہے طاری
بام و در اب بھی مہکے ہوئے ہیں، جا چکا ہے ثناخواں کبھی کا
میں ریاضؔ آج بھی نعت لکھوں، انگلیوں کو لہو میں ڈبو لوں
میرے زخموں پہ رکھیں گے مرہم وہ صلہ دیں گے نوحہ گری کا