نہیں ہرگز نہیں شبِ خیزیاں یہ بے اثر میری- نصابِ غلامی (2019)
نہیں ہرگز نہیں شب خیزیاں یہ بے اثر میری
ہزاروں عکس لے کر لوٹ آتی ہے نظر میری
اگرچہ ٹوٹ کر گرتی رہیں لہریں حوادث کی
مگر ہے آج بھی موجِ صدا محوِ سفر میری
کبھی تو گلشنِ رحمت کی مٹی ہاتھ آئے گی
کبھی تو رنگ لائے گی بہارِ بے ثمر میری
گرا ہے دامنِ شب پر لہو میری امیدوں کا
مگر ہے ناتوانی آج بھی سینہ سپر میری
رہِ طیبہ کے ہر ذرے کو آنکھوں میں چھپا لوں گا
حضوری کی دعا مقبول ہو جو نامہ بر میری
میں کیوں در در پہ جا کر دوں صدا اے قافلے والو
مرا ایمان ہے، سرکار ﷺ کو ہے سب خبر میری
انہی ﷺ کی کالی کملی میں ملے گا نور وحدت کا
انہی ﷺ کے نقشِ پا میں جھلملاتی ہے سحر میری
ریاض اُن ﷺ کی عطا کا تو ٹھکانہ ہی نہیں کوئی
کہاں تک پھول بھر سکتی قبائے مختصر میری