تھا نقیب شب مگر اب حلقۂ اسود میں ہوں- نصابِ غلامی (2019)
تھا نقیبِ شب مگر اب حلقۂ اسود میں ہوں
سبز گنبد کے مکیں کے نام کے گنبد میں ہوں
میرے لفظوں کو بھی مدحت کی عطا ہوں خلعتیں
یا خدا! مَیں بھی حروفِ نعت کی ابجد میں ہوں
سرمدی پھولوں سے دامانِ غزل بھر دوں گا میں
رحمتِ ہر دو جہاں کی رحمتِ بے حد میں ہوں
جھلملاتی ہے کسی کے اسمِ تازہ کی سحر
رات کے پچھلے پہر سے نور کے معبد میں ہوں
ذوقِ مدحت تُو مجھے لے چل مدینے کی طرف
سر پہ لہراتی ہوئی مَیں بجلیوں کی زد میں ہوں
چوم کر سرکار ﷺ کی دہلیز کو آئے گھٹا
ایک مدت سے میں تنہا آگ کے برگد میں ہوں
یہ بھی تو اُن ﷺ کے کرم ہی کی بدولت ہے ریاضؔ
مَیں ابھی تک عافیت اور امن کی سرحد میں ہوں