قطعات- نصابِ غلامی (2019)
قطعہ
اُن ﷺ کے طفیل اُس نے کرم پر کرم کئے
میرے تمام لفظ چراغِ حرم کئے
شب بھر پڑھا درود رسالت مآب ﷺ پر
ہونٹوں پہ روشنی نے ستارے رقم کئے
قطعہ
اتنی سی آرزو ہے خداوندِ دوجہاں
آنکھوں میں جھلملاتی رہے راہِ یار بھی
ہر قافلے کے نقشِ قدم چومتا رہوں
طیبہ کے راستے میں ہو میرا مزار بھی
قطعہ
نکلوں کبھی میں حلقۂ عمر کثیف سے
لوٹے نہ قافلہ مرا راہِ حنیف سے
پہنچوں میں تیرے شہر کی اجلی فضا میں جب
گر جائیں بال و پر مرے جسمِ نحیف سے
قطعہ
تشنہ کامی مری دیتی ہے دہائی تیری ﷺ
نام ہونٹوں پہ صبا آج بھی لکھے تیرا ﷺ
سایہ افگن مرے گلشن کے جلے پیڑوں پر
پرچمِ ابرِ شفاعت ہے ازل سے تیرا ﷺ
قطعہ
اندھیری شب کی سلگتی ہوئی ہواؤں میں
مرے وجود کا لاوا پگھلنے لگتا ہے
میں جب بھی تذکرہ کرتا ہوں چاند لمحوں کا
ترا ہی نام لبوں پر مچلنے لگتا ہے
قطعہ
مملکت جس کی دل و جاں میں دوامی ٹھہری
دونوں عالم کی بقا جس کی غلامی ٹھہری
حرفِ آغاز ہوا جس کی قدم بوسی سے
حرفِ تکمیل بھی وہ ذاتِ گرامی ٹھہری
قطعہ
عمرِ عزیز منتشر ہونا نہیں کبھی
اگلے برس بھی جشنِ ولادت منائیں گے
اگلے برس بھی رقص کرے گا یہی قلم
اگلے برس بھی چاند ستارے اگائیں گے