مظاہرِیقیں: یقیناً چشمِ تر مضمون باندھے گی حضوری کا- اکائی (2018)

یقیناً
چشمِ تر مضمون باندھے گی حضوری کا
یقیناً
باوضو ہو کر قلم سجدے میں رہتا ہے
یقیناً
ہے مسلسل روشنی لفظوں کے باطن میں
یقیناً
حسن کی تفہیم بھی مکتب میں ہوتی ہے
یقیناً
ہر ورق پر چاندنی مہکے گی مدحت کی
یقیناً
اِس برس پیغام آئے گا مدینے سے
یقیناً
دیدہ و دل میں چراغاں ہونے والا ہے
یقیناً
روشنی کے پھول برسیں گے سرِ محفل
یقیناً
میری پلکوں پر ستارے جھلملائیں گے،
یقیناً
بن کے تصویرِ ادب چوموں گا قدموں کو
یقیناً
وہ طلب فرمائیں گے اک بار پھر مجھ کو
یقیناً
رنگ لائے گی مرے اندر کی بے تابی
یقیناً
عافیت کے نور سے روشن سحر ہو گی
یقیناً
ملّتِ بیضا کی عظمت لوٹ آئے گی
یقیناً
سنگ باری شہرِ طائف کی نہیں ہوگی
یقیناً
خوف سامانِ سفر باندھے گا بستی میں
یقیناً
آتشِ نمرود کا ایندھن اَنا ہو گی
یقیناً
عجز کی ٹھنڈی ہوا میں سانس لیں گے ہم
یقیناً
زر پرستی کے اندھیرے لوٹ جائیں گے
یقیناً
گفتگو ہو گی ہوائے خلدِ طیبہ سے
یقیناً
دودھ کی نہریں بھی بہتی ہیں مدینے میں
یقیناً
رزق ملتا ہے پھلوں کا شہرِ طیبہ میں
یقیناً
علم و فن کی مشعلیں تقسیم ہوتی ہیں
یقیناً
آگہی کے پھول کھلتے ہیں منڈیروں پر
یقیناً
آبخوروں میں خنک پانی کے چشمے ہیں
یقیناً
لفظ کی محراب میں میرا تخیل ہے
یقیناً
جبر کی کالی چٹانیں ٹوٹ جائیں گی
یقیناً
میری دلجوئی کا ساماں ہے غلامی میں
یقیناً
مرغذارِ دیدۂ پُرنم میں ہے ٹھنڈک
یقیناً
روشنی اترے گی میرے بھی دریچوں میں