فرشتۂ اجل سے التماس- اکائی (2018)

ذرا ٹھہرو!
ندامت کے مَیں اشکوں سے وضو کر لوں
ذرا ٹھہرو!
مَیں اپنی التجائیں رکھ لوں سجدوں میں
ذرا ٹھہرو!
سجودِ آخری میری جبیں میں ہیں
ذرا ٹھہرو!
مَیں مصروفِ ثنا ہوں ارضِ قرآں میں
ذرا ٹھہرو!
مجھے لینا ہے بوسہ حجرِ اسود کا
ذرا ٹھہرو!
مطافِ کعبۂ اقدس میں ہے شاعر
ذرا ٹھہرو!
دعائیں ملتزم پر آبدیدہ ہیں
ذرا ٹھہرو!
مجھے فرصت ہے کب آقا ﷺ کی مدحت سے
ذرا ٹھہرو!
غلامی کی مَیں ساری خلعتیں لے لوں
ذرا ٹھہرو!
حرا کے راستے پر چشمِ تر رکھ دوں
ذرا ٹھہرو!
مَیں رکھ دوں آپ ﷺ کے قدموں میں سر اپنا
ذرا ٹھہرو!
مَیں ہونٹوں پر درودِ آخری لکھ لوں
ذرا ٹھہرو!
سلاموں کو سجا لوں اپنے دامن میں
ذرا ٹھہرو!
کتابیں نعت کی لے لوں مَیں مکتب سے
ذرا ٹھہرو!
ستاروں کو چمکنا ہے تصور میں
ذرا ٹھہرو!
وراثت میں غلامی کی سند رکھ دوں
ذرا ٹھہرو!
کتابِ عشق کو رکھ لوں میں سینے میں
ذرا ٹھہرو!
مدینے کی مَیں گلیاں چوم لوں شب بھر
ذرا ٹھہرو!
قلم کو ساتھ لے لوں مَیں دمِ رخصت
ذرا ٹھہرو!
ہیں مصروفِ ثنا سب دھڑکنیں دل کی
ذرا ٹھہرو!
عمامہ باندھ لوں سر پر غلامی کا
ذرا ٹھہرو!
خدا حافظ مَیں کہہ لوں اپنے بچوں کو
ذرا ٹھہرو!
مَیں اپنے رتجگوں کو رکھ لوں سانسوں میں
ذرا ٹھہرو!
مَیں توشہ آخرت کا ہاتھ میں لے لوں
ذرا ٹھہرو!
یہ میلاد النبی ﷺ کی صبحِ روشن ہے
ذرا ٹھہرو!
چھپا لوں گنبدِ خضرا کو آنکھوں میں
ذرا ٹھہرو!
چراغِ آرزو رکھ لوں دل و جاں میں
ذرا ٹھہرو!
میں بھر لوں مغفرت کے پھول دامن میں
ذرا ٹھہرو!
کفن لے لوں غبارِ راہِ طیبہ کا
ذرا ٹھہرو!
مدینے سے ہوائیں چل پڑی ہوں گی