یا خدا! میرا قلم رقصِ مسلسل میں رہے- کتابِ التجا (2018)
یا خدا!
ماہِ مکرم کے حسیں لمحات میں
میرے اس خاکی بدن پر تو سجاکرنوں کے پھول
وادیٔ اظہار میں ہو لب کشا حرفِ ادب
آمدِ سرکارؐ پر مدحت کے روشن ہوں چراغ
گوشہ گوشہ ارضِ جاں کا جھوم اٹھے، یا خدا!
یا خدا!
صبحِ ولادت کو کروں جھک کر سلام
شہرِ مکہ کی ہواؤں کو میں بڑھ کر چوم لوں
اور سینے سے لگا لوں سب درو دیوار کو
سنگِ اسود کو مبارک باد دے میری زباں
میں درِ کعبہ پہ رکھ دوں ہاتھ پر جلتے چراغ
ہر قدم پر میں بچھا دوں اپنی پلکوں کے گلاب
آمنہؓ کے لالؐ کی آمد پہ جھوم اٹھے فلک
گردشِ افلاک نے جھک کر کہا، آقاؐ سلام
مرحبا، خیر البشرؐ، یاسیدیؐ، یامرشدیؐ
دل کی ہر دھڑکن بچھادوں رہگذارِ عشق میں
یا خدا!
جگنو اڑیں میرے دیارِ شوق میں
رتجگوں کا سلسلہ محشر تلک جاری رہے
یا خدا!
ماہِ مکرّم کے حسیں لمحات میں
جب ہوا کے لب پہ بھی مہکیں ترو تازہ گلاب
جب صبا صحنِ چمن میں وجد کے عالم میں ہو،
ہر طرف خوشبو جلائے جب چراغِ آرزو
ہر کلی کے ہاتھ میں بھی موتیوں کے ہار ہوں
جب لبِ تشنہ پہ بوندیں آسمانوں سے گریں
جب دھنک کے رنگ اتریں مرغزاروں میں ہزار
جب گریں شبنم کی بوندیں پھول کے رخسار پر
جب محبت ہر دریچے میں جلے بن کر چراغ
ہر طرف گاتی پھرے میرے سخن کی روشنی
شہرِ طیبہ کی ہواؤں سے کروں میں گفتگو
دھڑکنوں کے ہاتھ اٹھیں جب سلامی کے لئے
آنکھ طوفِ گنبدِ خضرا میں جب مصروف ہو
جب قدمِ پاک کی جانب کوئی رکھے جبیں
جب چراغوں کی قطاریں بھی پڑھیں نعتِ حضورؓ
جب نیا سورج سلامی دے درِ سرکارؐ پر
آبخورے جب دعا مانگیں.......... کرم کی بارشیں
سارے مشکیزوں میں جب زم زم بھرے، بادِ خنک
کہکشاں جب راستوں میں مشعلیں روشن کرے
تہنیت کے پھول برسیں خوشبوؤں کے ہاتھ پر
(روشنی کے لب مبارکباد سے مہکے رہیں)
تتلیاں سانسوں میں لاکھوں رنگ بکھراتی رہیں
یا خدا! میرا قلم رقصِ مسلسل میں رہے