کیا کروں عرض ہے جاں بلب آدمی، یا نبیؐ، یا نبیؐ، یا نبیؐ، یا نبیؐ- زر معتبر (1995)

کیا کروں عرض ہے جاب بلب آدمی یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ
سانس رُکتی ہوئی ہچکیاں آخری یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ

لفظ جیسے سسکتی ہوئی چاندنی، حرف سہمے ہوئے خوف کی پالکی
کب سے ہے بے زباں زیرِ لب آگہی یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ

روح پر سوچ کی لغزشوں کا دُھواں، چشمِ ماحول میں درد کی کرچیاں
تیز بارش ہوا اور بدن کاغذی یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ

آئینہ بھی دکھائی نہیں دے رہا، اب تو کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا
تیرگی روشنی پر مسلط ہوئی یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ

بادِ صرصر جنُوں کی نمائش کرے بند کلیو ںکے گھونگھٹ اُلٹتی پھر
آبروئے بہارِ چمن لُٹ گہی یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ

مُردنی چھا رہی ہے ہر اک چیز پر، اُونگھتے زرد لمحوں کی دہلیز پر
کسمپرسی کے عالم میں ہے زندگی یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ

بوجھ اپنی صلیبوں کا کم تو نہ تھا اپینے سینوں میں پہلے ہی دم تو نہ تھا
خشک ہونٹوں پہ کائی سی جمنے لگی، یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ

جُرمِ ناکردہ میرا مقدّر بنے، ہاتھ انصاف کے فرد لکھنے لگے
آپؐ ہی آکے میری کریں منصفی، یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ

چشمِ رحمت سے اُٹھے سحابِ نظر، اب تو سرکارؐ آئے جوابِ نظر
ٹوٹ جائے نہ ڈوری کہیں آس کی یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ

اپنے زخموں کی چادر میں لپٹا رہوں، ذات کے قیدخانے میں سمٹا رہوں
اب عطا ہو درِ ناز کی چاکری، یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ

اپنی تر دامنی کا بھی احساس ہے آپؐ کے گھر کی عظمت کا بھی پاس ہے
میں ریاضؔ آپؐ کا ہوں مگر اُمّتی یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ یانبیؐ