فصیلِ ارضِ وطن پر بھی معجزے برسیں- کتابِ التجا (2018)
علوم و فن کے کئی لاکھ سلسلے برسیں
مرے خدا! مری بستی میں آئنے برسیں
قلم، حصارِ اَنا میں سسک رہا ہے ابھی
جو صرف عدل پہ مبنی ہوں فیصلے برسیں
مرے خدا! مجھے ابلاغ کا سمندر دے
کتابِ دیدۂ پرنم کے حاشیے برسیں
بہت قریب دھڑکتے ہوں دل مکینوں کے
بہت ہی دور کہیں جا کے فاصلے برسیں
اٹھے ہوئے ہیں زمینوں کے ہاتھ بھی کب سے
ترے ہی فضلِ مسلسل کے دائرے برسیں
چہار سمت سے یلغار ہے حوادث کی
جہانِ ربط و مراسم میں حوصلے برسیں
فضا میں کب تلک اڑتی رہیں گی میرے خدا!
برہنہ شاخ پہ چڑیوں کے گھونسلے برسیں
سجائے پھرتے ہیں ہم لوگ خواب آنکھوں میں
فلک سے آج بھی آنگن میں چاند سے برسیں
خزاں کی قید میں برسوں رہا ہوں میرے خدا!
مرے درختوں پہ پتے ہرے بھرے برسیں
ہر ایک پھول پہ جگنوں ہوں، تتلیاں ہوں ہزار
روش روش پہ بہاروں کے قافلے برسیں
گرفتِ شام میں مشکل سے سانس لیتا ہوں
ترے کرم کی گھٹاؤں کے جمگھٹے برسیں
سروں پہ حشر کا سورج برستا رہتا ہے
تمام سائے جو پیڑوں کے ہیں گھنے برسیں
ہوائے شہرِ مدینہ ادھر سے بھی گذرے
اداس شام میں مدحت کے رتجگے برسیں
ادا کروں میں مناسک تمام تر، یاربٖ
قدم قدم پر عبادت کے راستے برسیں
دعا قبول ہو میری خدائے ارض و سما!
فصیلِ ارضِ وطن پر بھی معجزے برسیں
چراغِ عشقِ نبیؐ لامکاں میں روشن ہیں
چراغِ عشقِ نبیؐ آسمان تلے برسیں
ریاضؔ اپنی دعاؤں میں لکھ یہی مصرع
مری زمین پہ بادل بھی ضبط کے برسیں