عَلَم اُس کی توحید کے کھُل رہے ہیں- کتابِ التجا (2018)
مری داستاں اَن گنت حادثوں میں بٹی ہے
مَیں خود اپنے ریزے سمیٹوں گا کب تک
دکھائی مجھے کچھ بھی دیتا نہیں
مگر میرے خالق کی ساری خدائی میں حمد و ثنا کے
دریچے کھلے ہیں
مَیں اپنے دکھوں کا کفن اپنے سر سے لپیٹے
یہ کن گہری سوچوں میں ڈوبا ہوا ہوں
اندھیروں میں سورج پگھلنے لگے ہیں
خدا کی خدائی میں پھولوں کی بارش کئی دن سے خوشبو
لٹاتی رہی ہے
پرندے فضاؤں میں اڑتے رہے ہیں
دھنک کے سبھی رنگ ابھرتے رہے ہیں
یہاں تتلیوں جگنوؤں کی قطاریں
نئے دن کے رستوں پہ آنکھیں بچھا کر
سحر کے اجالوں میں کھوئی رہی ہیں
بہت رحمتیں میرے دل پر برستی رہی ہیں
مجھے اپنی محرومیوں کا کوئی دکھ نہیں ہے
مَیں غم کی چٹانوں کو اپنے بدن میںچھپائے ہوئے ہوں
صبا اُس کی حمد و ثنا کے چراغوں کو کب سے اٹھائے
سرِ رہگذر روشنی اپنے ہاتھوں سے تقسیم کرتی رہی ہے
عَلَم اُس کی توحید کے کھُل رہے ہیں
ازل سے ابد تک … وہ سب کا خدا ہے
خدا کی بزرگی کا اعلان کرتے ہوئے روشنی کھو گئی ہے
اُسی کی تجلی میں گم ہو گئی ہے
ہوا اُس کے دربارِ عفو و کرم میں
اِدھر سے اُدھر جا رہی ہے
اُدھر سے اِدھر آ رہی ہے
خنک پانیوں کے کٹورے بھی تقسیم ہونے لگے ہیں
نبی جیؐ کے صدقے میں رحمت کے بادل برسنے لگے ہیں
پیمبرؐ کی رحمت کی چادر مرے دونوں شانوں پہ ڈالی گئی ہے
کئی روشنی کے دیے میرے ہاتھوں پہ رکھ کر
ہوا چھپ گئی ہے گھنی جھاڑیوں میں
مَیں آقاؐ کے قدموں میں بیٹھا ہوا ہوں
حصارِ کرم مجھ کو گھیرے ہوئے ہے
خنک موسموں نے مدینے کی ٹھنڈی ہوائیں فضا میں سجائی ہوئی ہیں
مجھے ایسے محسوس ہونے لگا ہے
مَیں آقاؐ کے قدموں میں آنکھیں سجا کر
ادب سے کھڑا ہوں
مرے سامنے ایک محراب سی بن گئی ہے
مگر، ہمسفر! میرے سجدوں سے پہلے
کتابِ دعا میرے ہاتھوں میں دے دے