اے خدا! تُو عَصْرِ نو کی کربلا کی لاج رکھ- کتابِ التجا (2018)
اے خدا! میرے حروفِ التجا کی لاج رکھ
شب اندھیری ہے چراغِ لب کشا کی لاج رکھ
ایک قطرے کے برابر بھی نہیں میری طلب
بندہ پرور! ہر نوائے بے نوا کی لاج رکھ
دامنِ اعمال کا ہر تار ہے الجھا ہوا
روزِ مَحْشر ہر غلامِ مصطفیٰؐ کی لاج رکھ
اس صدی کے ہے یزیدوں کا تسلط ہر جگہ
اے خدا! تُو عَصْرِ نو کی کربلا کی لاج رکھ
بندۂ ناچیز ہوں اور پیکرِ عجز و نیاز
اے خدا! سہمی ہوئی میری صدا کی لاج رکھ
قریۂ زر میں مقیّد جو کئی صدیوں سے ہے
یاخدا! تُو اس ہجومِ بے نوا کی لاج رکھ
میرے اشکوں کے دیے ہیں اِس کے دونوں ہاتھ پر
شہرِ طیبہ کی طرف جاتی ہوا کی لاج رکھ
شاہراہِ عشق پر رہتی ہے شب بھر روشنی
یا الٰہی، مشعلِ دستِ صبا کی لاج رکھ
اس کے ہاتھوں میں بھی دے یا رب! پذیرائی کے پھول
آج بھی تُو خواہشِ بے دست و پا کی لاج رکھ
میری کشتی کو مدینے کے جزیرے میں اتار
قادرِ مطلق، دعائے ناخدا کی لاج رکھ
مَیں مطافِ کعبۂ اقدس میں ہوں گریہ کناں
میرے ہونٹوں پر سسکتی ہر دعا کی لاج رکھ
سر اٹھا کر تُو نے ہی چلنا سکھایا ہے مجھے
جو بھی ہے میری انا، میری انا کی لاج رکھ
مَیں ریاضِؔ خوشنوا لایا ہوں مدحت کے گلاب
شعر گوئی کے پر و بالِ ہما کی لاج رکھ