ہر لفظ خود کشی کا خارج مری لغت سے- کتابِ التجا (2018)
گرتی رہیں وطن میں رحمت کی آبشاریں
نغمے سلامتی کے گاتی رہیں بہاریں
شاداب ساعتوں کے جھرمٹ زمیں پہ اتریں
ہر شاخِ آرزو پر پھولوں کی ہوں قطاریں
اوقاتِ مہرباں میں جھومیں غزل کی پریاں
سجدے تری زمیں پر، یارب! کئی گذاریں
بچوں کی کشتِ جاں میں خوابوں کی فصل بوئیں
دستِ دعا اٹھا کر، یارب! تجھے پکاریں
ہو لفظ خود کشی کا خارج مری لغت سے
بیٹے مرے وطن کے اپنا جہاں سنواریں
بارود بھر رہے ہیں جسموں میں یرغمالی
یہ پیرہن بدن سے اموات کی اتاریں
ہم بے نوا پرندے نکلے تو ہیں قفس سے
لیکن کھُلی فضا میں بہتی ہیں خوں کی دھاریں
ہونٹوں پہ جبرِ شب کی مہریں لگی ہوئی ہیں
جذبات مر رہے ہیں، جذبات کیا ابھاریں
اجڑے ہوئے مناظر یہ کہہ رہے ہیں کب سے
اپنے لہو سے اپنے گلشن کو ہم نکھاریں