روشنی اترے فلک سے کہکشاں در کہکشاں- کتابِ التجا (2018)
دستگیری میری فرمانا، خدائے مہرباں!
جب کروں تخلیق میں اپنی زمیں، اپنا جہاں
کون دیتا ہے ضمیروں میں خلش کی روشنی
کون دیتا ہے مرے اندر صداقت کی اذاں
ہر پرندے کی زباں پر ہے تری حمد و ثنا
سجدہ ریزی ہے مصلّے پر عقیدت کا نشاں
گھپ اندھیروں میں سفر جاری رکھیں کیا قافلے
روشنی اترے فلک سے کہکشاں در کہکشاں
دے مکینِ گنبدِ خضرا کے در کی روشنی
چُن رہا ہوں مَیں تمناؤں کی ٹوٹی کرچیاں
ساحلِ طیبہ مقدّر ہر سفینے کا بنے
پھٹ چکے ٹوٹی ہوئی سب کشتیوں کے بادباں
باغِ جنت سے چلیں جگنو لئے کرنوں کے پھول
ارضِ پاکستان پر اتریں کرم کی تتلیاں
دھوپ کی چادر بچھی ہے کربلائے عصر میں
دے غبارِ شامِ غم کو عافیت کا سائباں
ہر بشر کے ہاتھ پر رکھ امنِ عالم کا نصاب
ہر طرف ہے یاخدا! بجھتے چراغوں کا دھواں
حرفِ حق کا مَیں نے دامن ہاتھ سے چھوڑا نہیں
ہر فقیہہ شہر نے میری ہی کاٹی ہے زباں
میں تلاشِ عظمتِ ماضی میں نکلا ہوں ریاضؔ
میرے قدموں کے تلے ٹوٹا ہوا ہے پائیداں