تلاوت تریؐ مغفرت کی نشانی- زر معتبر (1995)

رقم تھی صحیفوں میں تیریؐ کہانی
ہویدا تھی ہر شے سے تیرؐی نشانی
لپٹ کر یہ شاخوں سے کہتی تھی شبنم
رُتوں پر بھی آئے گی اِک دن جوانی
فضا میں سِمٹتی رہی تیرؐی نکہت
ہَوا میں بھی ہوتی رہی گُلفشانی
عناصر تھے فطرت کے محوِ تماشا
خلا میں بِکھرتے رہے رنگ دھانی
بشارت فرشتوں نے دی روزِ اوّل
سُنا تذکرہ انبیاء کی زبانی
زمیں اپنے بخت رسا پر تھی نازاں
وہ ساعت تھی نوری گھڑی تھی سہانی
تِرؐے ساتھ رحمت کی برکھا بھی آئی
تِرؐے ہاتھ میں تھی کتاب آسمانی
تُو یکتا ہے، بزمِ رسالت میں آقاؐ
حقیقت میں تیرؐا نہیں کوئی ثانی
تصوّر ترؐا سبز کرنوں کی رم جھم
تبسّم ترؐا خلعتِ آسمانی
ابد تک دلوں پر حکومت ہے تیرؐی
نہ ہوگی کبھی یاد تیرؐی پرانی
شفق عارضِ نُور میں جھلملائے
اُفق تا اُفق ہے تریؐ راجدھانی
تُوؐ ملکِ خُدا کا رتن دیپ چہرہ
تلاوت تریؐ مغفرت کی نِشانی
ترؐے نور سے ہَے جہاں میں اُجالا
ترؐے دم سے کونین میں شادمانی
بھلا مَیں ہوں کیا میری اوقات کیا ہے
مِری نعت گوئی تریؐ مہربانی
نہ دُنیا نہ عقبیٰ میں اُس کا ٹھکانہ
ذرا بھی ہے تجھ سے جسے بدگمانی
مَیں گُم یا محمدّؐ تصوّر میں تیرؐے
پیام آئے بادِ صبا کی زبانی
تِریؐ آرزُو کا تسلسل نہ ٹوٹے
مَیں پیتا رہوں یہ مئے ارغوانی
نہ دستِ دُعا بھی اُٹھا میں سکوں گا
کریں گے یہ اشکِ رواں ترجمانی
یہ منظر بھی دیکھیں گے اہلِ مدینہ
مَیں رکھ دوں گا دہلیز پر جاں نمانی

مَیں کھو جاؤں گا پھر حضوری میں شاید
مِرے کام آئے گی یہ ناتوانی
زمانے کا تو نے مقدّر اُجالا
محبت کی ہر سمت تھی بیکرانی
غلاموں کو دستارِ عظمت عطا کی
یتیموں پہ شفقت بہت مہربانی
تو کانِ مروّت کا انمول ہیرا
مگر اے نصابِ محبت کے بانی
گریں ٹوٹ کر روشنی کی چٹانیں
بہت دُور ہے منزلِ کامرانی
اندھیروں کی زد میں بشر کو ہے لانا
جہالت نے پھر اپنے من میں ہے ٹھانی
وہ مشرق کا سُورج کہاں چھپ گیا ہَے
مرا ہمسفر، میرا سانسوں کا جانی
سنائیں کسے حالِ دل یامحمدؐ
کرے کون تیرؐے سوا ترجمانی
فلسطین و کشمیر و قبرض میں آقاؐ
لہو سے لکھی جا رہی ہے کہانی
ابھی تک ہے اقصیٰ کے دامن میں کالک
ابھی تک تشدّد کی ہے حکمرانی
یہ افتاد کیسی غلاموں پہ آئی
مصیبت گِری ٹوٹ کر ناگہانی
لہُو رنگ چہرہ ہے افغانیوں کا
کرے کون خیبر کی اب پاسبانی
ہَے خطرے میں پھر عصمتِ شہرِ اقدس
ابابیل آئیں ملے کامرانی
عجب کسمپرسی کی حالت ہے موؐلا
نہ بازو میں طاقت نہ آنکھوں میں پانی
تمدن کی دہلیز پر جُھک گئے ہیں
عجب روز و شب ہیں عجب زندگانی
فریبِ مسلسل کا جَادُو جگا کر
مسلّط نہ ہوں آفتاب آنجہانی
اندھیروں کے مدِّ مقابل بھی آئیں
کوئی روشنی کی کرن آسمانی
ہمیں پھر سیادت کی خلعت عطا ہو
ہمیں پھر جہاں کی ملے ساربانی
بہت ہو چکی اب زمانے میں ذلّت
ہُوئی تیز تر چشمِ تر کی روانی

رسُولِ ازل میں بھی شاعر ہوں تیرؐا
کبھی رنگ لائے مری سوز خوانی