ثلاثی- کتابِ التجا (2018)
ثلاثی
کسمپرسی کا ہے عالم زندگانی پر محیط
سانس لینے کا تکلف کر رہا ہوں آج بھی
دے مجھے محبوب کا صدقہ، مرے اچھے خدا
ثلاثی
مضطرب رہتے ہیں آنگن میں ہواؤں کے ہجوم
حسرتِ ناکام ہے ہر پیڑ سے لپٹی ہوئی
میرے احوالِ پریشاں کو بدل میرے خدا!
ثلاثی
تختیوں پر ہیں حروفِ آرزو بکھرے ہوئے
میرے بچوں کو بھی دے آسودہ لمحوں کے گلاب
ہر مصلّے پر نکل آئیں دعاؤں کے ہجوم
ثلاثی
جتنے انساں تُو نے پیدا ہیں کئے
اُن پہ سرکارِ دو عالم کے طفیل
رحمتوں کی بارشیں دن رات کر
ثلاثی
کاش دامانِ طلب میں گر پڑیں سِکّے ہزار
کاش شاخوں پر مری امید کی کرنیں کھلیں
کاش میرے خواب کی تعبیر مل جائے مجھے
*
ندرتِ افکار ہے تیرا کرم
تو نے بخشا ہے شعورِ زندگی
روشنی کا ارضِ جاں میں ہو نزول