شاعرِ بے مثالِ محمد ﷺ- ورد مسلسل (2018)

’’شاعرِ بے مثالِ محمد ﷺ‘‘

کتاب کوئی بھی ہو اس کا حرفِ آغاز لکھا جاتا ہے، کوئی تعارف ہوتا ہے جس کے لئے دیباچہ یا پیش لفظ کا نام بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس میں کتاب کے موضوع، اس کے مختلف پہلو اور مصنف کا زاویہ نگاہ بیان کیا جاتا ہے۔ نثر ہو تو ابواب بندی اورمشتملات کا خلاصہ لکھا جاتا ہے اور شاعری ہو تو کلامِ شاعر کے مضامین ، اسلوب ، محاسن، روایت اور جدیدیت، شعری لغت ، حسنِ کلام کے خدوخال اور شاعر کی شعری اور فنی مہارت کا ذکر ہوتا ہے۔ نعتیہ ادب کے معاملے میں مدح نگار کی فن شعر پر دسترس کے کامل ادراک کے لئے اس کے کلام سے منتخاب کی بنیاد پر اس کے اسلوب، شعر میں استعمال کی جانے والی زبان اور ممدوحِ رب ذوالجلال کے لئے اخلاص و محبت اور سوز عشق کے خود رو اظہار کے معاملات پر بات ہوتی ہے۔

ریاض حسین چودھری ؒ ایسے شاعر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کے کلام پر بات کی جائے تو سوچنا پڑ جاتا ہے کہ بات کہاں سے شروع کی جائے کیونکہ ان کے کلام کی وسعت کا احاطہ کرنا مشکل مرحلہ ہے جب کہ ن کے مضامین نعت کے تنوع کو سمیٹنا بھی اتنا ہی دقیق کام ہے۔ یہ مجموعۂ کلام ان کا بیسواں مجموعہ ہے جب کہ معیار کلام کی بات کریں تو جب ابھی بارہ مجموعہ ہائے نعت ہی شائع ہوئے تھے تو ان میں سے چھ کو صدارتی اور سیرت ایوارڈز مل چکے تھے۔ ان کے 14ویں اور 15ویں مجموعے ان کے وصال پر ملال کے بعد پرنٹ ہوئے۔ جب انہیں ایورڈز کے فیصلہ کرنے والے اداروں کو پیش کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ درجہ بندی صرف شاعر کی زندگی ہی میں کی جاتی ہے اور وصال کے بعد چھپنے والی کتابوں کو اس پڑتال میں شامل نہیں کیا جاتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ربِّ نعت جو ایوارڈز انہیں عطا کر دئیے ہوئے ہیں ان کے بعد ان دنیاوی انعامات اور تمغوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔

ان کا نعتیہ کلام 23 مجموعوں پر مشتمل ہے جن میں سے 16 چھپ چکے ہیں اور باقی سات اشاعت کے مختلف مراحل میں ہیں۔ جو چھپ چکے ہیں وہ ان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں اور غیر مطبوعہ کلام کو بھی ویب سائٹ کی زینت بنانے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ چودھری صاحب کے سولہ نعتیہ مجموعوں کے تعارف کے لئے نامور شعرا اور ادیبوں نے قلم اٹھایا ہے اور انہیں صف اول کے جدید اردو نعت نگاروں میں ممتاز مقام کا حقدار ٹھہرایا ہے۔ کسی نے پیشوایت کا درجہ دیا ہے تو کوئی انہیں جدید اردو نعت نگاری کا امام گردانتا ہے۔ مگر یہ تو اپنی اپنی رائے ہے ۔ ان کا اصل مقام تو وہ ہے جو نک نعت خود انہیں عطا کرے گی اور جس میں کچھ وقت لگ جائے گا۔

آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا یہ بیسواں مجموعہ نعت ’’ورد مسلسل‘‘ ریاض اور ریاض کی نعت کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ ریاض تعلّی میں آ کر لکھتے ہیں:

تعلّی سہی، یہ حقیقت نہیں کیا
کہ ہوں شاعرِ بے مثالِ محمد ﷺ

وہ اپنی نعت نگاری کو ’’شہرِ سخن‘‘ کہتے ہیں اور اس استعارے کی رعایتوں کو کمالِ فن کے ساتھ استعمال کرتے ہیں؛ اسی مضمون آفرینی سے ان کے کلام کی وسعت پروان چڑھتی ہے:

توقیر بخش دوں میں غزل کے جہان کو
شہرِ سخن کو شہرِ نبی ﷺ پر فدا کروں

غزل اور نعت کا موازنہ ان کا محبوب مضمون ہے جس پر انہوں نے اپنا ایک مجموعہ کلام مرتب کر کے اسے ’’غزل کاسہ بکف‘‘ کا نام دیا؛ ان کی جدید اردو نعت میں اس طرح کے مضامین رگِ جاں کی حیثیت رکھتے ہیں؛ ملاحظہ فرمائیں:

تو نے ریاضؔ اذنِ خدا سے بصد خلوص
کشتِ غزل میں نعت کا موسم اگا دیا

چمن زارِ غزل میں ہے درودِ پاک کی رم جھم
فضا شہرِ قلم کی کس قدر ہے خوبرو امشب

فن شعر کے معیار اور اعلیٰ جدیدیت کے حوالے سے ریاض نے اپنی مدحت نگاری میں ’’غزل‘‘ کو فن شعریت کے استعارے کے طور پر استعمال کیا ہے۔

اک عجب سا کیف ملتا ہے سرِ شامِ غزل
مدحتِ خیر الوریٰ کی آرزو کرتے ہوئے
حبیبِ داورِ مَحْشر سے لو لگائی ہے
تمام عمر ہی وقفِ غزل رہا ہوں مَیں

جسے وہ شہرِ سخن کہتے ہیں اسی کو اب وہ شہرِ غزل بھی کہہ رہے ہیں:

سیرت سے اُن ﷺ کی نعت کا دامن سجاؤں گا
شہرِ غزل! مَیں تیرا مقدّر جگاؤں گا
میری غزل کو تاجِ ثنائے نبی ﷺ ملا
سر ہے بلند آج بھی اس انکسار میں

لیکن ایک مقام ایسا آتا ہے جہاں وہ اپنے کلام کی حسن آرائی سے مطمئن نہیں رہتے۔ حسرت اظہار ان کی تخلیقی کیفیات پر اثر انداز ہوتی ہے تو وہ صنف غزل کو تنگ نائے غزل کہہ کرشعر کی دوسری اصناف میں طبع آزمائی کا فیصلہ کرتے ہیں ؛ دیکھیں وہ اس کیفیت کو کیسے بیان کرتے ہیں:

ریاضؔ، اُن ﷺ کی ثنا کے پیرہن لاکھوں ملے تجھ کو
یہ کیا رستے نکالے ہیں غزل کی تنگناؤں میں

اسی طرح ریاض کے کلام میں قلم ایک مضبوط اور وسیع استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے جسے وہ اپنے گیگر استعاروں کے ساتھ گہری معنوی رعایتوں کے ساتھ استعمال کرتے ہیں اس جو حسن کلام وجود میں آتا ہے اس کو صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔

ہر ایک لفظ کے باطن میں کہکشاں سمٹے
قلم ریاضؔ کے ہاتھوں میں چاندنی کا ہے

پہنے ہوئے ثنا کی ہیں پوشاک آج بھی
آنکھیں مرے قلم کی ہیں نمناک آج بھی

اب تک قلم کو چومنے آتی ہے کہکشاں
تختی کبھی لکھی تھی پیمبر ﷺ کے نام کی
اترا ورق پہ چاند ستاروں کا جب ہجوم
رعنائیِ خیال قلم سے لپٹ گئی

شہرِ نبی ﷺ کی پھول گلی کی خنک ہوا
بن کر گلاب شاخِ قلم پر کھلا کرو

تتلی ریاض کے کلام میں ایک اور خوبصورت استعارہ ہے جسے وہ کمال مہارت سے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے انہوں نے حسن معنی کوایسا جمال بخشا ہے جو اس سے پہلے کہیںذوق کی تسکین کا ساماں کرتے نظر نہیں آیا۔ دیکھیں تتلیوں کو کن کن معانی اور مفاہیم کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔یہ تو ایک مسلسل نعت ہے ، فردیات میں بھی اس حسن معانی کی تجلیات یوں ہی بکھری نظر آتی ہیں:

قندیل آرزو کی جلائیں گی تتلیاں
لب پر حروفِ نعت سجائیں گی تتلیاں

میرے لئے بھی گنبدِ خضرا کے آس پاس
چھوٹا سا گھر ضرور بنائیں گی تتلیاں

اُن ﷺ کے نقوشِ پاک کو بوسہ دیئے بغیر
رستہ کبھی بھی ڈھونڈ نہ پائیں گی تتلیاں

دامانِ آرزوئے مدینہ میں آج بھی
فرقت کے آنسوؤں کو چھپائیں گی تتلیاں
پلکوں سے چوم چوم کے چوکھٹ حضور ﷺ کی
آنکھیں درِ نبی ﷺ پہ بچھائیں گی تتلیاں

بہرِ طوافِ نقشِ کفِ پائے مصطفیٰ ﷺ
آئیں گی تتلیاں کبھی جائیں گی تتلیاں

اوراقِ جاں پہ رنگ بکھیرے گی شامِ وصل
دیوارِ شہرِ ہجر گرائیں گی تتلیاں

طائف کے سنگ ہاتھ میں لے کر سرِ بدن
فصلِ یقین و عزم اگائیں گی تتلیاں

دستِ دعا پہ رکھیں گی آنچل بہار کا
نقشِ خزاں تمام مٹائیں گی تتلیاں

مداحِ چشمِ ساقیٔ کوثر ہوں اس لئے
محشر میں مجھ کو پانی پلائیں گی تتلیاں

ہر شب میں نعت لکھتا ہوں گلشن کی تتلیو!
ہر شب طواف میرے قلم کا کیا کرو

یہ ہیں ریاض کے کلام کی شعری اور فنی وسعتین جو ان کے ساٹھ ہزار سے زیادہ لکھے گئے نعتیہ اشعار کو محیط ہیں۔ ’’وردِ مسلسل‘‘ اس حوالے سے ایک نادر مجموعہ کلام ہے ۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ’’مسلسل‘‘ کے لفظ کو وہ کس حسن کارانہ انداز میں استعمال کرتے ہیں:

ہر حرفِ آرزو میں مدینے کی دلکشی
ڈوبی ہوئی ہے کیفِ مسلسل میں زندگی

گھر کی فضا میں صلِّ علیٰ کے جلیں چراغ
گھر میں رہے درودِ مسلسل کی روشنی

صدقہ مرے قلم کا اتارے ہے آسماں، میرے لبوں کو چومنے آئی ہے کہکشاں
مَیں نے کہی ہے نعتِ مسلسل ابھی ابھی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

توصیف کا منصب مرے اشکوں کو ملا ہے
الفاظ میں ہوتا نہیں اظہار مسلسل

پلکوں پہ فروزاں مرے اشکوں سے بھی آقا ﷺ
رہتی ہے ہوا بر سرِ پیکار مسلسل

ریاض نے خوشبو کا ستعارہ بھی اسی حسنِ فن کے ساتھ اپنے سارے کلام میں استعمال کیا ہے۔مدحت رسول کو بھی وہ خوشبو کہتے ہیں۔مگر دیکھیں وہ اس استعارے کو کن رعایتوں کے ساتھ استعمال کر کے اپنے کلام کو معنوی گہرائی کا سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ اس مجموعے میں بھی خوشبو کے حوالے سے حسن شعریت کے نادر نمونے موجود ہیں:

کلی نے لکھ دیا ہے نام اُن ﷺ کا میری تختی پر
ابد کے بعد بھی خوشبو رہے گی ہمسفر میری

ہجومِ لالہ و گل ہے مرے آنگن کے پیڑوں پر
بنی ہے پیرہن، خوشبو، ترو تازہ گلابوں کا

کتابِ آروز کے ہر ورق پر چاندنی رکھ دوں
میں خوشبو کے لبِ اظہار پر نعتِ نبی ﷺ رکھ دوں

خوشبوئے خلدِ نبی ﷺ کو جسم ہو، یارب! عطا
جس قدر بھی ہیں یہاں دیوار و در پتھر کے ہیں

ریاض کے کلام کی بڑی خوبی جسے احمد ندیم قاسمی جیسے صاحب مقام ادیبوں نے محسوس کیا وہ ان کا شبابِ اظہار ہے جسے وہ ’’بھرپور‘‘ کے لفظ سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ریاض کا سارا کلام اسی شبابِ اظہار کی خوشبو سے مہک رہا ہے۔ خود ریاض اس کا اظہار ’’لب کشا‘‘ کی ترکیب سے کرتے ہیں:

حروفِ لب کشا اتریں قلم کی راجدھانی میں
رہے مصروف کلکِ التجا شام و سحر میری

لب کشائی کی کہاں جرأت غلاموں میں، حضور ﷺ
طشت میں آنسو سجا لائے، بہت اچھا کیا

منکر نکیر مجھ سے لحد میں کریں سوال
یارب! بیاضِ نعت ہو ہر لب کشا مری
کیا مقدّر ہے میری زمیں کا، اوج پر ہے ستارا یقین کا
آج غارِ حرا لب کشا ہے، بام و در رقص میں آرہے ہیں

چراغ اور ہاتھوں پر چراغ ایک اور بہت پیاری ترکیب ہے جسے ریاض مہارت فن کے ساتھ اپنے کلام میں لے کر آئے ہیں۔ایک محبوب ترکیب، ہاتھ میں قلم، کلک ثنا ہے نعت کا نورچراغ ہے جو ان کے ہاتھوں میں روشن ہے اور کلک ثنا کے لئے وہ ماہ ِتمام کے طالب ہیں جو بھرپور نعت کے استعارے کے طور پر استعمال ہوا ہے۔

التجا ہے یہ ریاضِؔ بے نوا کی، یاخدا!
ہو عطا کلکِ ثنا کو آج بھی ماہِ تمام

مَیں نے ہر ساعت کے ہاتھوں پر جلائے ہیں چراغ
ہے یہی میری نجاتِ اُخروی کا اہتمام

تازہ ہوا کے ہاتھ میں مشعل ثنا کی ہے
رہتی ہے مستقل مرے کمرے میں روشنی

چراغِ نعت روشن کررہا ہوں ہر ہتھیلی پر
مقدر آسماں پر ہے مری بستی کے لوگوں کا

ہوائے تند میں دونوں ہتھیلیوں پہ ریاضؔ
چراغِ نعت سجا کر نکل رہا ہوں مَیں

عالمِ ارواح میں مجھ کو قلم بخشا گیا
عشق کے رکھے گئے میری جبلت میں چراغ

جانتے ہو؟ آپ ﷺ نے تقسیم کی ہے روشنی
اشک جو پلکوں پہ ہیں وہ ہیں حقیقت میں چراغ

ریاض کے حسن کلام، حسن شعریت اورشبابِ اظہار کے چند نمونے پیش کئے ہیں ۔ اسی طرح لحد، روز محشر ، پھول، جگنو ،تتلیاں ،بچے، کہکشاں ، چاند، جگنو، ستارے، دھنک اور اسی ان گنت تراکیب و علامات ہیں جن سے ان کی نعت جدید کا وجود متشکل ہوا ہے۔یہی حسن لغت ان کے 23 مجموعہ ہائے کلام کو محیط ہے۔ اور ’’ورد مسلسل‘‘ جو آپ کے ہاتھ میں ہے اسی شباب اظہار کا ایک خوبصورت نمونہ ہے۔

شیخ عبد العزیز دباغ