سمندر موجزن رہتا ہے ہر لحظہ درودوں کا- ورد مسلسل (2018)

سمندر موجزن رہتا ہے ہر لحظہ درودوں کا
اتاروں کیوں نہ مَیں صدقہ شمیمِ گل کے ہونٹوں کا

زمیں والو! چلو اب پھول بانٹو امنِ عالم کے
بہت سا قرض باقی ہے ابھی آقا ﷺ کے قدموں کا

چراغِ نعت روشن کررہا ہوں ہر ہتھیلی پر
مقدر آسماں پر ہے مری بستی کے لوگوں کا

فراتِ عشق پر پہرے بٹھا رکھے ہیں قاتل نے
نشیمن جل رہا ہے آپ ﷺ کے بے بس غلاموں کا

تری تخلیقِ اول سے اے نیلے آسماں والے
منوّر آج بھی ہے سرورق لاکھوں صحیفوں کا

کیا ہے قصد نعتِ مصطفیٰ ﷺ لکھنے کا امشب بھی
ہے چہرہ روزِ روشن کی طرح روشن چراغوں کا
ہجومِ لالہ و گل ہے مرے آنگن کے پیڑوں پر
بنی ہے پیرہن، خوشبو، ترو تازہ گلابوں کا

مرے آنسو مسلسل، یانبی ﷺ ، فریاد کرتے ہیں
بیاضِ نعت میں رکھا ذخیرہ مَیں نے نوحوں کا

مجھے تضحیک کے اہداف میں شامل کرو بے شک
کوئی پرسانِ حالِ دل بھی ہے مجھ سے نکمّوں کا

جنازہ اٹھ رہا ہے صبحِ نو کا شب کے کندھوں پر
کہ اندازِ ستم بدلا نہیں تاریک صدیوں کا

ابھی بوجہل کی ہر رسمِ شر جاری ہے دنیا میں
نہیں ممکن کہ دل زندہ ہو ان باطل پرستوں کا

حروفِ ’’یامحمد ﷺ ‘‘ لکھ لیے ہیں بادبانوں پر
محافظ ہوگا طوفاں میں خدا میرے سفینوں کا

ابھی تو صرف کانٹوں ہی میں دامن ان کا الجھا ہے
ابھی تو رنگ بدلے گا چمن میں گل فروشوں کا

مرے یہ رہنما آتش فشاں کی سرخ مٹی پر
بناتے ہیں گھروندا، یانبی ﷺ ، کاغذ کے پرزوں کا

مجھے کامل یقیں ہے جب مَیں پہنچوں گا مدینے میں
سلامِ شوق لیں گے وہ ﷺ مری مضطر نگاہوں کا

مجھے ہر شاخ پر کرنے ہیں مدحت کے دیے روشن
بھروسہ کیا کرے کوئی گلستاں کی ہواؤں کا

ریاضؔ اپنے قلم کو کیوں نہ چوموں آج بھی، اِس نے
ورق پر رکھ دیا ہے نورِ مدحت اپنے سجدوں کا