شامِ تنہائی کے لمحوں میں- زر معتبر (1995)
چلے ہیں قافلے سوئے حرم بنجر نواؤں کے
اثر دیکھوں گا میں بھی ایک دن اپنی دعاؤں کے
جبینِ شعر پر یہ کس کے قدموں کی شفق پھوٹی
کہ دستارِ سخن میں بھر گئے موتی صداؤں کے
مَیں اُنؐ کے نقشِ پاکو منزلِ جاں کیوں نہ ٹھہراؤں
سرِ افلاک بھی چرچے ہیں جن کی انتہاؤں کے
صبا، دربارِ اقدس سے اجازت لے کے آئی ہے
بلند اوجِ ثریا سے مُقدّر ہیں گداؤں کے
مَیں اکثر سوچتا ہوں شامِ تنہائی کے لمحوں میں
مِری آنکھیں کہاں قابل ہیں طیبہ کی ضیاؤں کے
زباں کو اذنِ گویائی ملا ہے نعت گوئی سے
وگرنہ چاک دامن تھے صحیفوں کی قباؤں کے
ریاضؔ اپنے لبوں پر ناز فرمانے کے دن آئے
کہ لہرانے لگے ہیں جام رحمت کی گھٹاؤں کے
*
ہمارے بے صدا چہرے ہیں مظہر کج اداؤں کے
ادب کی حد سے بھی گزرے ہیں نالے بے نواؤںکے
دہائی دے رہی ہے پھر دُکھی انسانیت مولاؐ
ہوس کاروں نے پَر بھی نوچ ڈالے فاختاؤں کے
عطا حوا کی بیٹی کو کریں اب چادرِ زینبؓ
یزیدوں کے علم، آنچل بنے ہیں داشتاؤں کے
وہ تنہائی سی تنہائی مسلّط ہَے مِرے آقاؐ
کہ انسانوں کے باطن میں بھی منظر ہیں خلاؤں کے
حضُورؐ اب آدمی اپنے ہی سائے سے ہراساں ہے
محیطِ جسم و جاں تیور ہیں طُوفانی ہواؤں کے
سکُونِ قلب کی دولت مکینِ گنبدِ خضرا
در و دیوار چیخ اُٹھے مسائل کی گپھاؤں کے
ریاضؔ اپنے وطن کی خاک کے آنسو بھی لایا ہَے
رسُولِ محترم، کیجئے کرم اپنی عطاؤں کے