یارب! ترے کرم کی نسیمِ سحر چلے- ورد مسلسل (2018)
یارب! ترے کرم کی نسیمِ سحر چلے
لفظوں میں تیرے نور کی رم جھم دمک اٹھے
ہر ہر قدم پہ رنگ لٹاتی ہے روشنی
ہر ہر قدم پہ کس نے بچھائے ہیں آئنے
ارض و سما میں حسنِ ازل کی بساط پر
پھیلے ہوئے ہیں اُن ﷺ کی مؤدت کے دائرے
کتنا تو خوش نصیب ہے سوچا بھی ہے کبھی
شہرِ قلم ہے، پھول ہیں، مدحت کے رتجگے
قسمت کسی کی نیند میں بھی جاگتی رہی
روضہ رہا ہے آپ ﷺ کا نظروں کے سامنے
تہذیبِ نو ہے نارِ جہنم بنی ہوئی
بھوکے کئی دنوں سے ہیں بچے گلاب سے
آنگن میں کب سے بادِ بہاری ہے منتظر
بچوں کے ہاتھ میں بھی ہیں گجرے درود کے
شب بھر رہی شریکِ سفر روشنی، حضور ﷺ
جگنو تمام، تتلیاں سب، میرے ساتھ تھے
ہر اجنبی کو دیتے ہیں خوشبو خلوص کی
یہ ساکنانِ شہرِ نبی ﷺ دل کے ہیں بڑے
میں تو غلام بھی نہیں اُن ﷺ کے غلام کا
کیا کیجئے گا میری غلامی پہ تبصرے
اپنا قلم تلاش میں کر لوں تو پھر چلوں
بطحا کی وادیوں میں ٹھہر جائیں قافلے
پرچم شفاعتوں کا ہے آقا ﷺ کے ہاتھ میں
ہر چیز پر محیط ہیں رحمت کے سلسلے
بچوں نے چھوڑ دی ہے نئے دن کی آرزو
جنگل کے خوف ہم نے گھروں میں بسا لئے
مشعل امیرِ قافلہ کے ہاتھ میں نہیں
مکتب میں بند علم و ہنر کے ہیں قافلے
تاریک شب سے دوستی کرنے کے جرم میں
آقا ﷺ ، چراغ روشنی دیتے نہیں مجھے
آقا ﷺ ، یہیں کہیں مجھے قدموں میں دیں جگہ
صد شکر واپسی کے مقفّل ہیں راستے
اتنے عزیز اپنے مفادات تھے، حضور ﷺ
بچوں کے خواب، پھول، غبارے چرا لئے
ہر ہر ورق پہ نام ہو اربابِ عشق کا
لکھے قلم کتابِ محبت کے حاشیے
ہر لمحہ حاضری کا ملا ہے مجھے ریاضؔ
سمٹے رہیں گے حشر تک طیبہ کے فاصلے