مَیں خود بھی، قلم بھی مرا، انوار میں گُم ہیں- ورد مسلسل (2018)
مَیں خود بھی، قلم بھی مرا، انوار میں گُم ہیں
طیبہ کے خنک سے در و دیوار میں گم ہیں
جتنے بھی تخیّل کے پرندے تھے فضا میں
توصیفِ پیمبر ﷺ کے چمن زار میں گُم ہیں
خوشبو ہے درودوں کی مرے گھر کا مقدّر
آقا جی ﷺ ، کنیزیں شبِ بیدار میں گُم ہیں
شایانِ نبی ﷺ شعر کوئی ہو نہیں پایا
مدحت کے مضامیں لبِ اظہار میں گم ہیں
اب کلکِ ثنا نور بھرے لفظ سمیٹے
انوارِ معانی مرے افکار میں گُم ہیں
آقا ﷺ کے شب و روز کے مکتب میں پڑھا ہے
خورشیدِ عمل سیرت و کردار میں گُم ہیں
بچّو! دمِ رخصت مرے، کہنا یہ اجل سے
ابّو تو ابھی مدحتِ سرکار ﷺ میں گُم ہیں
تصویر بڑی گنبدِ خضریٰ کی چھپی ہے
سو آنکھیں سبھی آج کے اخبار میں گم ہیں
مانگوں درِ آقا ﷺ پہ مَیں کیا؟ ہوش نہیں ہے
اہدافِ طلب گرمیٔ بازار میں گم ہیں
محشر کی گھڑی سر پہ کھڑی ہے سرِ مقتل
ہم لوگ مگر جبّہ و دستار میں گُم ہیں
چمکے مری قسمت کا ستارا بھی کسی شب
آنکھوں کے دیے حسرتِ دیدار میں گُم ہیں
کشتی مری بے سمت رواں ہے، مرے آقا ﷺ
امید کے ساحل ابھی منجدھار میں گم ہیں
ہیں نقشِ کفِ پائے نبی ﷺ کے متلاشی
یہ ارض و سما سیّدِ ابرار ﷺ میں گم ہیں
قرآں کے سمندر میں اترتے ہی نہیں ہیں
اربابِ نظر لفظ کی تکرار میں گُم ہیں
آقا جی ﷺ ، ریاضؔ آپ ﷺ کا شرمندہ بہت ہے
پچھتاوے کے دن چشمِ گنہ گار میں گم ہیں