دستِ صبا پہ رکھتا ہوں مدحت کی روشنی،- ورد مسلسل (2018)

دستِ صبا پہ رکھتا ہوں مدحت کی روشنی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ
کشتِ ادب، ازل سے ہے میری، ہری بھری، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

پہرے لگے ہوئے ہیں ہواؤں پہ آج بھی، خلقت کو سانس لینے میں مشکل ہے آپڑی
تازہ ہوا نصیب میں لکھّے خدا کبھی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

مطلع میں بھی جمالِ خدائے رحیم ہے، مقطع میں بھی جلالِ خدائے قدیم ہے
یہ پوری کائنات ہے اک نعت آپ ﷺ کی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

مَیں کیا ہتھیلیوں پہ سجاؤں گا آفتاب، مَیں کیا کروں گا چاند ستاروں کا انتخاب
پیشِ نظر ہے آپ ﷺ کی تابندہ تر گلی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

کاسہ بکف لغت ہے کھڑی، در پہ آپ ﷺ کے، پھیلے ہوئے ہزار طلب کے ہیں راستے
اوراقِ جاں پہ چمکا ہے خورشیدِ آگہی حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

دامن تہی نہیں سرِ بازارِ آرزو، دیوار و در بھی کرتے ہیں طیبہ کی گفتگو
رہتی ہے آس پاس بہاروں کی دلکشی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ
اس کو قبولیت کا شرف ہے عطا ہوا، اس کے بڑے نصیب کا سورج چمک اٹھا
خوشبو چمن میں کیوں نہ کرے گی نبی ﷺ نبی ﷺ ، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

صدقہ مرے قلم کا اتارے ہے آسماں، میرے لبوں کو چومنے آئی ہے کہکشاں
مَیں نے کہی ہے نعتِ مسلسل ابھی ابھی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

اترے ہیں چار سمت سے پھولوں کے قافلے، جگنو منارہے ہیں گلستاں میں رتجگے
پڑھتی رہی درود کی آیت کلی کلی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

افراد گھر کے عجز کا پیکر بنا کریں، بچّے مرے بھی آپ ﷺ کی نعتیں پڑھا کریں
کلیاں فضا میں آج بھی مہکیں درود کی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

کلکِ ثنا کہ اوجِ ثریا پہ ہے مقیم، اس کا طواف کرتی رہیں نکہت و شمیم
سر پر لئے ہوئے ہے سلاموں کی اوڑھنی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

یہ شہرِ دلنواز ہے یہ شہرِ بے مثال، یہ شہر حسنِ ارض و سماوات کا کمال
برسیں گے حشر تک یہاں انوارِ سرمدی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

کب تک کوئی حقوق کی لڑتا رہے گا جنگ، پھیکے بہت ہیں آج دھنک کے تمام رنگ
مردہ ہوئی نہیں ابھی اندر کی سرکشی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ
ساحل کے آس پاس گھروندے نہیں رہے، خوف و ہراس سے ہیں سفینے رکے ہوئے
امت کے ناخدا کی ہے ہر ناؤ کاغذی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

زر کی ہوس کی آگ ہے اندر لگی ہوئی، زندہ معاشروں کی روایت ہی مٹ گئی
ماحول بن گیا ہے زمانے کا نرگسی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

اتنا گھمنڈ، اتنی رعونت، خدا پناہ، چھائی ہوئی ہے فتنہ و شر کی شبِ سیاہ
لیکن بساطِ شہرِ تمنا الٹ گئی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

کب سے ہدف بنا ہوں پسِ شامِ کربلا، سچ بولنے کی ملتی رہی ہے مجھے سزا
تصویرِ غم بنا ہوا بستی میں ہے کوئی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ

زر کی ہوس ریاضؔ بھی کیا گل کھلائے گی، کس کس کے آشیاں کو چمن میں جلائے گی
کب تک بدن پہ آگ لپیٹے گا آدمی، حرفِ ثنا قبول ہو، آقا حضور جی ﷺ