بساطِ عشق پر اپنی غلامی کے گہر رکھ دیں- ورد مسلسل (2018)

بساطِ عشق پر اپنی غلامی کے گہر رکھ دیں
درِ سرکارِ دو عالم ﷺ پہ اپنے بال و پر رکھ دیں

رقم ہے ہر ورق پر امتِ مضطر کا ہر آنسو
درِ اقدس پہ جا کر ہم کتابِ نوحہ گر رکھ دیں

ادب دامن پکڑ لیتا ہے میری آرزوؤں کا
مواجھے کی فضاؤں میں کسی دن چشمِ تر رکھ دیں

جنہیں آبِ شریعت میں بھگو رکھا ہے برسوں سے
بیاضِ نعت میں امشب حروفِ معتبر رکھ دیں

خدا سے مانگتے رہنا مسلسل مانگتے رہنا
عریضے میں اِسی شب التجائے مختصر رکھ دیں

یہی جادہ ہمارا ہے، یہی منزل ہماری ہے
جو سامانِ سفر ہے اُس گلی میں ہمسفر رکھ دیں

مَیں چھوٹے دل کا چھوٹا آدمی ہوں صبر کیا ہو گا
زرِ خاک مدینہ ہاتھ پر اب نامہ بر رکھ دیں

نبی جی ﷺ کے غلاموں کو چراغِ آرزو دے کر
کتابِ دل نقوشِ پا پہ ہم بھی دیدہ ور، رکھ دیں

اداسی نے در و دیوار پر آنسو بکھیرے ہیں
قلم کے شہرِ دلکش میں چلو رنگِ سحر رکھ دیں

ریاضؔ اب کے برس بھی روشنی کم ہے چراغوں میں
ہوا کے ہاتھ پر مدحت کے سب شمس و قمر رکھ دیں

*

ثروتِ الطاف و رحمت کی ہو بارش رات دن
ہم غریبوں کا بھرم رہ جائے گا، آقا حضور ﷺ