ہر نقشِ کفِ پائے محمد ﷺ ہے منوّر- ورد مسلسل (2018)
ہر نقشِ کفِ پائے محمد ﷺ ہے منوّر
گلیاں بھی مدینے کی ابد تک ہیں مصوَّر
سرچشمۂ انوار ہے سرکار ﷺ کا روضہ
مرکز نگہِ عشق کا دربارِ پیمبر ﷺ
یہ شہرِ ادب، شہرِ کرم، شہرِ عطا ہے
ہر ساعتِ دلکش ہے یہاں صبح کا منظر
اک حرفِ تسلی لب اقدس پہ نبی جی ﷺ
اترے ہیں بہت سینے میں تضحیک کے نشتر
ڈھارس بھی بندھاتا ہے مری شام سویرے
رکھتا ہے تر و تازہ مجھے ذکر معطّر
تا حشر قلم چلتا رہے شہرِ ثنا میں
تا حشر تلاطم رہے جذبات کے اندر
مالک ہیں، وہ جب چاہیں، جسے چاہیں نوازیں
جب چاہیں وہ چمکائیں غلاموں کا مقدّر
کشتی مری کاغذ کی ہے سرکارِ مدینہ
برسی ہے گھٹا ٹوٹ کے، بپھرا ہے سمندر
ڈھونڈیں گے جزیرے میں دعاؤں کا خزانہ
طائف سے چلے آتے ہیں ہر روز ہی پتھر
معراجِ پیمبر ﷺ کا سبق بھول چکے ہیں
مکتب ہیں قدامت کی روایات کے مظہر
بھٹکے ہوئے انساں سے کہو لوٹ بھی آئے
وہ ﷺ امن کے داعی ہیں وہ ﷺ ہیں علم کے پیکر
ہر نسل مری حلقۂ مدحت میں رہے گی
آدابِ غلامی مرے بچوں کو ہیں ازبر
کعبے کے علاوہ مَیں تجھے خاک ہی لکھتا
ہوتا نہ اگر تجھ پہ زمیں، گنبدِ اخضر
آقا جی ﷺ کی امت کو کئی خانوں میں بانٹیں
کس کام کے واعظ ہیں یہ کس کام کے رہبر
ہر بار معانی کے نئے پھول ہیں کھلتے
اک لطف عجب دیتا ہے ہر حرفِ مکرّر
مَیں آج بھی مقتل میں اذاں دینے چلا ہوں
قبروں ہی میں مدفون ہیں قبروں کے مجاور
پلکوں پہ ریاضؔ اشکِ مؤدت کی ہے رم جھم
پھیلی رہے اوراق پہ افکار کی چادر