سوائے چاند تاروں کے ملے گا کیا خلاؤں میں- ورد مسلسل (2018)
سوائے چاند تاروں کے ملے گا کیا خلاؤں میں
چراغِ امن ڈھونڈو نور کی رم جھم گھٹاؤں میں
کرم اُس کا محیطِ ارضِ جاں روزِ ازل سے ہے
یقینِ مغفرت شامل ہے میری سب خطاؤں میں
مدینے کے تمدن کو سمجھنے کا ہنر سیکھے
خرد الجھی ہوئی ہے فلسفے کی تنگناؤں میں
ـذرا ٹھہرو، مَیں چشمِ تر کے پانی سے وضو کر لوں
مدینہ ہی مدینہ بے نوا کی ہے نواؤں میں
انا میری تو اک باندی درِ شاہِ امم ﷺ کی ہے
ملے گی عجز کی بادِ خنک تجھ کو اناؤں میں
کوئی کس منہ سے شہرِ مصطفیٰ ﷺ میں اپنے لب کھولے
مسائل ہی مسائل ہیں کسی کی التجاؤں میں
مرے ہونٹوں پہ دریا موجزن صلِّ علیٰ کا ہے
مدینے کے افق سے رنگ اترے ہیں ہواؤں میں
بہت مجھ کو ستایا ہے مری بستی کے لوگوں نے
بہارو! لے چلو مجھ کو مدینے کی فضاؤں میں
مضافاتِ مدینہ میں بھری تھیں جھولیاں جس سے
وہی کیفِ مسلسل ہے مری دھیمی صداؤں میں
لبِ تشنہ کو رکھ دوں گا کسی دیوار کے اوپر
کرم کا مینہ برستا ہے اُدھر رحمت کے گاؤں میں
ملے اذنِ حضوری تو اڑیں افلاک کی جانب
دعائیں منتظر ہیں گنبدِ خضرا کی چھاؤں میں
بشر کو لوٹ کر آنا پڑے گا اُن ﷺ کی چوکھٹ پر
یہ پھر سرگوشیاں ہونے لگی ہیں فاختاؤں میں
حدودِ شہرِ طیبہ کے رکھے اندر جو محشر تک
پڑے زنجیر ایسی یاخدا، میرے بھی پاؤں میں
ریاضؔ اب کے برس بھی حاضری ہو گی مواجھے میں
حروفِ آرزو مَیں نے بھی رکھے ہیں دعاؤں میں