مَیں بھکاری ہوں شہرِ نبی ﷺ کا،- ورد مسلسل (2018)
مَیں بھکاری ہوں شہرِ نبی ﷺ کا، مجھ سے اعزاز میرا نہ چھینو
اس میں سکّے ہیں اُن ﷺ کے کرم کے، میرے کشکول کو بڑھ کے چومو!
اپنی قسمت کی لے کر بلائیں، اپنے آنگن کو کیوں نہ سجائیں
میری آنکھو! بڑے ہی ادب سے، یادِ سرکار ﷺ میں آج برسو
عجز کی بن کے تصویر رہنا، حالِ دل میرے آقا ﷺ سے کہنا
یہ مقامِ ادب ہے، مرے دل! اس قدر زور سے بھی نہ دھڑکو
کھو گیا ہوں مَیں اُن ﷺ کے نگر میں، چھپ گیا ہوں میں دیوار
و در میں
قافلے والو! اب لوٹ جاؤ، اب خدا کے لئے کچھ نہ ڈھونڈو
جامِ کوثر مرے ہاتھ میں ہے، یہ عطا ہے مرے مصطفیٰ ﷺ کی
روزِ محشر، فرشتو! خدارا نام میرا غلاموں میں لکھو
ٹھوکریں کھا رہا ہوں چمن میں، گھر سے بے گھر ہوا ہوں وطن
میں
حکم ہو روشنی کو نبی جی ﷺ ! اس کی بے نور راہوں میں اترو
دیکھنا میرے لوح و قلم کو، خوشبووں نے اٹھا ہی لیا ہے
تم درودوں کے گجرے بناؤ، میرے گھر کی مہکتی فضاؤ!
مدحتِ مصطفیٰ ﷺ لکھ رہا ہوں، پھول بن کر مہکنے لگا ہوں
مکتبِ روز و شب کی ہواؤ، پیرہن میرے لفظوں کا بدلو!
دوستو عجز کا بن کے پیکر، انتظارِ کرم میں مچلنا
کس کی دہلیز پر تم، کھڑے ہو، ہوش میں آؤ، خود کو سنبھالو
خاکِ انور پہ پلکیں بچھا کر، چشمِ حیرت میں گم ہو گیا ہوں
آسماں سے اترتے ستارو، حال میرا مجھی کو بتاؤ
شہرِ اقبال کا ایک شاعر، کہہ رہا تھا نبی جی ﷺ سے کہنا
آج بھی شب نے مجھ کو ڈسا ہے، میری سوچوں کے اڑتے پرندو
اُن ﷺ کے نقشِ قدم کی بدولت، بخت اونچا رہے گا تمہارا
شہرِ طیبہ کی پر نور گلیو، میٹھی میٹھی سی مصری کی ڈلیو
دھیرے دھیرے چلو اے ہواؤ! سامنے روضۂ مصطفیٰ ﷺ ہے
آبگینے ہیں اشکِ رواں کے، میرے دامانِ تر سے نہ کھیلو
مَیں ریاضِؔ ادب کا شجر ہوں، اُن ﷺ کی راہوں کی گردِ سفر
ہوں
میری آنکھیں کہیں کھو گئی ہیں، مجھ کو طیبہ کا رستہ بتا دو