شناسا روشنی سے ہو مرے اندر کا انساں بھی- ورد مسلسل (2018)
شناسا روشنی سے ہو مرے اندر کا انساں بھی
کھلے شہرِ قلم میں نعت گوئی کا گلستاں بھی
برہنہ سر پہ سایہ آپ ﷺ کے انوار کا ہو گا
اڑی ہے جانبِ طیبہ مری خاکِ پریشاں بھی
بہاریں ہی نہیں ہوں گی فقط آنگن کے پیڑوں پر
مرے گھر میں رہے گا عمر بھر سروِ چراغاں بھی
منافق ساعتوں کے درمیاں شاید کہیں گم ہوں
مرے اندر ہے کافر بھی، مرے باہر مسلماں بھی
مدینے کے علاوہ اور جائے گا کہاں آخر
اگر آقا ﷺ کے منگتے کو ملا تختِ سلیماںؑ بھی
بکھر جائیں دھنک کے رنگ ہر شاداب وادی میں
ٹلے ارضِ وطن کے سر سے اب شامِ غریباں بھی
ورق پر کہکشاؤں کو اترنے دو مرے بچو!
لکھے گا چاند تارے اس برس میرا قلمداں بھی
اداسی ہر افق پر خیمہ زن ہے یارسول اﷲ
قضا کے ہاتھ میں رہتی ہے امت کی رگِ جاں بھی
کھڑی ہے امتِ مظلوم مقتل کے اندھیروں میں
یدِ بیضا سے خالی ہے حضور ﷺ ، اِس کا گریباں بھی
ریاضِ خوشنوا ہی تو نہیں سائل مدینے کا
کھڑے ہیں آپ ﷺ کی چوکھٹ پہ آقا ﷺ میر و سلطاں بھی
ریاضؔ اوجِ ثریا کی بلندی سے بہت آگے
بلندی سے بلندی پر ہے مدحت کا دبستاں بھی