خوشبو کے ساتھ مجھ کو بکھر جانے دیجئے- زر معتبر (1995)
خوشبو کے ساتھ مجھ کو بکھر جانے دیجئے
رحمت کی وادیوں میں اُتر جانے دیجئے
حُبِ رسولِ ارض و سماوات کے طفیل
شاخِ گلابِ جاں کو نکھر جانے دیجئے
نعتِ حبیبِ پاک کا پرچم لیے ہوئے
طغیانِ آرزُو کو ادھر جانے دیجئے
ہر اک کنیز رکھتی ہے سینے میں دھڑکنیں
قاصد کو ہر غلام کے گھر جانے دیجئے
اتنی بلندیوں کا تصور بھی تھا محال
بختِ رسا کے اوج سے ڈر جانے دیجئے
آنکھوں میں عکسِ گنبدِ خضرا رہے مدام
کشکولِ شوقِ دید ہے بھر جانے دیجئے
اے ہمنشیں! کرم کی گھٹائیں ہیں رقص میں
بگڑے ہوئے نصیب سنور جانے دیجئے
قدموں کو چھوڑنا مرے بس میں نہیں حضورؐ
قدموں ہی میں ریاضؔ کو مر جانے دیجئے