زباں صلّ علیٰ کے پھول ہونٹوں پر سجاتی ہے- زر معتبر (1995)
زباں صلِّ علیٰ کے پھول ہونٹوں پر سجاتی ہے
فضا میں خوشبوئے اسمِ محمدؐ گنگناتی ہے
حروفِ یارسول اﷲ بھی لکھ لیتی ہے آنچل پر
اُفق کے پار سورج کی کرن جب جگمگاتی ہے
چھلک پڑتی ہیں آنکھوں سے مِری مجبوریاں کتنی
حضوری کی تڑپ جب نیند سے مجھ کو جگاتی ہے
مدینے سے بلاوا ہی نہیں آیا ابھی ورنہ
میں جس رہ پر نکلتا ہوں وہی طیبہ کو جاتی ہے
کسی کا نام بن جاتا ہے ضامن میری کشتی کا
کسی کی رحمتِ پیہم کنارے سے لگاتی ہے
میں جب زنداں کی دیواروں سے ٹکراتا ہوں سر اپنا
مجھے یادِ نبیؐ مژدہ رھائی کا سناتی ہے
کرم کی ہوں مسلسل بارشیں میرے گُلستاں پر
خزاں آفت زدہ شاداب لمحوں کو جلاتی ہے
مِری شوخی کہیں سوئِ ادب ٹھہرے نہ محشر میں
مِرے جذبات کی لو کانپتی ہے تھرتھراتی ہے
ریاضؔ اکثر یہ ہوتا ہے صبا پچھلے پہر آکر
سرِ مژگاں شبیہِ گنبدِ خضرا بناتی ہے