نہیں سر میں سودا جزا و سزا کا- زر معتبر (1995)
نہیں سر میں سودا جزا و سزا کا
فقط چاہتا ہوں میں در مصطفیٰؐ کا
چراغاں ہوا ہے دیارِ غزل میں
قصیدہ میں لکھتا ہوں خیر الوریٰ کا
کبھی ڈگمگائے، کبھی گنگنائے
عجب حال ہے آج بادِ صبا کا
مرے لب پہ جھومے وہ اسمِ گرامی
ملا پیرہن جس کو صلِّ علیٰ کا
مہکتا ہوا ریگ زاروں میں گُلشن
چھلکتا ہوا جام جود و سخا کا
کرم ہی کرم اُسؐ کے دامن کی چھایا
صدف ہی صدف نقش ہے اُسؐ کے پا کا
اُسیؐ پر ہوا ختم بابِ فضیلت
وہی ایک پیکر ہے صدق و صفا کا
نہیں بخت کی نارسائی کا شکوہ
ثنا گر ہوں میں بھی شہِ انبیا کا
ہوا آخرِ شب چُنے میرے آنسو
یہی وقت ٹھہرا لیا ہے دُعا کا
دیے بُجھ چکے ہیں سرِ بزمِ ہستی
مگر چاند روشن ہے غارِ حرا کا
سُناتا ہُوں ممدوحِ رب کے ترانے
مِری نعت حصہ ہے حمدِ خُدا کا
ریاضؔ اُس کے در پر پڑا ہی رہوں گا
ٹھکانہ نہیں کوئی جس کی عطا کا