قائداعظمؒ- ارض دعا
اندھیری شب میں قدم قدم پر چراغ اُس نے جلا دیئے تھے
ہماری دونوں ہتھیلیوں پر گلاب لمحے سجا دیئے تھے
وہ جس نے صدیوں کا قرض اپنے نحیف کندھوں پہ رکھ لیا تھا
وہ جس نے تنہا چٹان بن کر عدو کے چھکے چھڑا دیئے تھے
بڑ ےسلیقے سے امتِ بے نشاں کے ادھڑے ہوئے بدن پر
مٹی ہوئی ساعتوں کے نقش و نگار اُس نے بنادیئے تھے
وہ جس نے جذبوں کی خاکِ مردہ میں عزم و ہمت کی روح پھونکی
حصارِ وحدت میں پڑنے والے شگاف اس نے مٹادیئے تھے
فراستوں کا جمال تھا وہ، بصیرتوں کا کمال تھا وہ
عظیم قائد نے اس زمیں کو ہزار رنگِ بقاء دیئے تھے
وہ جس کے اسلوبِ زندگی میں فقط صداقت کا ذائقہ تھا
وہ جس نے قصرِ فریب و شب کے سبھی جھروکے گرا دیئے تھے
اُسی نے روحوں کا میل دھوکر نئے دنوں کا شعور بانٹا
اُسی نے آنکھوں سے خود فریبی کے سارے پردے ہٹا دیئے تھے
کتابِ جاں کے ورق ورق پر اُسی کا چہرہ اُسی کی آنکھیں
اُسی نے کشتِ دل و نظر میں وفا کے موسم اگا دیئے تھے
وہ جس نے تمہیدِ صبحِ ارضِ وطن یقیں کے قلم سے لکھّی
ریاضؔ ملت کے بختِ خفتہ عمل سے اُس نے جگا دیئے تھے