اقبال تجھ سے آج بھی شرمندہ ہیں بہت- ارض دعا
تُو نے خودی کے پھول کھلائے افق افق
تُو نے کتابِ عشق کا الٹا ورق ورق
تُو نے ضمیرِ مردہ کو بخشی نئی خلش
اقبالؒ، کس کو یاد ہے بھولا ہوا سبق
O
سر تا قدم تُو عظمتِ رفتہ کی آرزو
تیرا کلام کھوئے ہوؤں کی ہے جستجو
اقبالؒ، کربلا سے ہے تاریخ کا سوال
اپنے لہو سے کون کرے گا یہاں وضو
O
صحرائے زندگی میں پریشان ہیں بہت
ردِ عمل کے باب میں نادان ہیں بہت
نیلام گھر میں بیچ کر اجداد کے کفن
ہم آئنوں کے روبرو حیران ہیں بہت
O
چہرہ بجھا بجھا سا ہے لیل و نہار کا
طوفاں کھڑا ہے راہ میں گردو غبار کا
پیوستہ ہیں شجر سے ہم، اقبالؒ آج بھی
صدیوں سے انتظار مگر ہے بہار کا
O
ملت کے ناخداؤں کا ملتا نہیں سراغ
گردِ انا میں لپٹے ہوئے ہیں ابھی دماغ
اقبالؒ، اقتدار کے بھوکے ہیں رہنما
لوگوں کے ہاتھ میں نہیں مٹی کا بھی چراغ
O
ہم نے خودی کو قتل کیا ہے قدم قدم
مدہوشیوں کا جام پیا ہے قدم قدم
تسخیرِ کائنات کے مقصد کو روند کر
نسلوں کو اضطراب دیا ہے قدم قدم
O
صدیوں کا قرض ہم سے چکایا نہ جاسکا
دامن گرفتِ شب سے چھڑایا نہ جاسکا
اقبالؒ، تجھ سے آج بھی شرمندہ ہیں بہت
اپنا ہی بوجھ ہم سے اٹھایا نہ جاسکا
O
افکارِ انقلاب کی تصویر ہم نہیں،
عزمِ جواں کی آہنی زنجیر ہم نہیں
محرومیوں کے پیرہن یکسر اتار کر
اقبالؒ، تیرے خواب کی تعبیر ہم نہیں
O
تحلیل ہوگی زرد ہواؤں میں بے بسی
قبروں سے پھوٹ نکلے گی مدفون آگہی
ہم ڈھونڈ لیں گے عظمتِ رفتہ کو ایک دن
گذرے دنوں کی لوٹ کے آئے گی روشنی
O
شب بھر ہوائے شہرِ نبیؐ ہوگی ہمکلام
عشقِ نبیؐ کرے گا دل و روح میں قیام
بھٹکے ہوؤں کو شہرِ نبیؐ کا پتہ بتا
اے شاعرِ رسولؐ ہمارا بھی ہو سلام