زلزلے کے بعد کی ایک نظم- ارض دعا
زلزلوں سے آشنا مَیں کب نہ تھا
کرچی کرچی کب نہ تھا میرا وجود
ریزہ ریزہ کب نہ تھی میری انا
زخم خوردہ کب نہ تھا میرا قلم
پائمالِ غم نہ تھے کب روز و شب
کب نہ تھی سر پر ردائے تار تار
کب نہ تھا روح و بدن میں ارتعاش
کب حصارِ خوف میں بچے نہ تھے
کب غریقِ شب نہ تھی میری سحر
کب نہ تھی ہر روشنی سہمی ہوئی
کب نہ تھی خوشبو پریشاں شاخ پر
کب نہ تھی پرنم مری چشمِ غزل
کب نہ دامن میں تھا کانٹوں کا ہجوم
کب نہ آندھی تھی گلی میں سربکف
رائیگاں کب تھی نہ جہدِ زندگی
ہاں، مگر میں ضبط کے ہاتھوں میں تھا
زلزلے اندر ہی اندر تھے بہت
زلزلے اندر کے باہر آگئے
حشر کے بادل افق پر چھا گئے