کیفِ حضوری- زر معتبر (1995)
میں کب تک شامِ فرقت سے لپٹ کر گیت گاؤں گا
صبا، تُو دیکھنا اذنِ حضوری میں بھی پاؤں گا
چلوں گا آگے آگے کاروانِ عشق و مستی کے
عَلَم شاداب لمحوں کا عقیدت سے اُٹھاؤں گا
ہوا کہتے ہوئے صلِّ علیٰ آئے گی وادی میں
میں زیرِ لب کسی کا نام لوں گا گنگناؤں گا
سحابِ نور جنگل میں لگا دے گا اُدھر خیمے
سفر کیا وہ سفر ہو گا میں جھوموں گا میں گاؤں گا
پڑے گی رات اور سو جائیں گے جب قافلے والے
چراغِ حسرتِ دیدار آنکھوں میں جلاؤں گا
تڑپ اٹھیں گے نقشِ پا جدائی کے تصور میں
میں مُڑ کر اُن کو دیکھوں گا نگاہوں میں چھپاؤں گا
نظر آئیں گے جب آثار گلزارِ محمدؐ کے
میں چھپ کر جھاڑیوں میں ہار اشکوں کے بناؤں گا
بچھڑ کر قافلے والوں سے کھو جاؤں گا صحرا میں
اکیلے ہی درِ اقدس پہ جا کر گِڑگڑاؤں گا
کبھی میں چوم لوں گا روضۂ اطہر کی جالی کو
کبھی دیوار و در کو اپنے سینے سے لگاؤں گا
کروں گا پہلے سرگوشی کے لہجے میں بہت باتیں
حنانہ سے لپٹ کر خوب آنسو میں بہاؤں گا
کبھی اشکوں سے لکھوں گا قصیدہ مصحفِ جاں پر
کبھی نقشِ کفِ پا کو میں سجدہ گہ بناؤں گا
کہوں گا سر جھکا کر، یارسول اﷲ، میں حاضر ہوں
اجازت لے کے اُنؐ سے زخمِ جسم و جاں دکھاؤں گا
عجب وارفتگی کا ایک عالم ہوگا شاعر پر
کہاں میں دھڑکنیں قلبِ محبت کی دکھاؤں گا
سمٹ جاؤں گا اپنی ذات کے محشر میں دیوانو!
ندامت اپنے چہرے کی کہاں تک میں چھپاؤں گا
درودِ پاک کے گجرے کروں گا نذر آقاؐ کی
اجازت مانگ کر الٹے قدم واپس پھر آؤں گا
مجھے دیوانہ کہہ کر لوگ روکیں گے مگر میں بھی
کبھی اِس سمت آؤں گا کبھی اُس سمت جاؤں گا
در و دیوار بھی پہچان لیں گے اپنے شاعر کو
محبت سے میں دستارِ سخن اُن پر بچھاؤں گا
مَیں ہر رستے سے پوچھوں گا کدھر سے آپؐ گزرے تھے
مَیں ہر ذرّے کو چُن کر اپنی پلکوں پر سجاؤں گا
مَیں نقشِ پا تلاشوں گا مضافاتِ مدینہ میں
فصیلِ شہر کے اندر کبھی دُھونی رماؤں گا
دلِ بے تاب پہلو میں کہاں ٹھہرے گا اک پل بھی
میں ہر زائر کو نعتِ مُصطفٰےؐ جا کر سناؤں گا
کبوتر گنبدِ خضرا کے پوچھیں گے یہ کون آیا
غلامی کی سند فوراً میں سِینے پر سجاؤں گا
بڑی حیرت سے دیکھیں گے فرشتے نور و نکہت کے
مَیں جب سروِ چراغاں اپنے مسکن کو بناؤں گا
مَیں ملکِ آرزو کا ایک شہزادہ مدینے میں
زرِ حرفِ وفا کی جھولیاں بھر کر لٹاؤں گا
چھُپا لوں گا میں ہر اک قافلے کے نقشِ پادل میں
فقیرِ رہگذر بن کر میں قسمت آزماؤں گا
بچا کر سب کی نظریں ایک دن کہہ دوں گا آقاؐ سے
مجھے قدموں میں رکھ لیجے کہاں واپس میں جاؤں گا
ریاضؔ اشکِ رواں روزِ جزا بھی کام آئیں گے
خُدا کے سامنے بھی چشمِ تر ہی لے کے جاؤں گا